آئین کے الفاظ بدلنے سے تحریک نہیں‌ رُکتی:سابق چیف جسٹس آزادکشمیر سپریم کورٹ منظور حسین گیلانی کا خصوصی انٹرویو

تنازع ریاست جموں و کشمیر طویل عرصے بعدایک بارپھر زیر بحث ہے۔ 5اگست2019ء کو بھارتی حکومت نے مقبوضہ ریاست کو خصوصی حیثیت دینے والے آئین کے آرٹیکل 370 کو بے روح کرکے جموں وکشمیر کا مرکزی حکومت کے ساتھ انضمام کر دیا ۔ مقبوضہ کشمیر کی سیاسی قیادت کی نقل وحرکت اور تقریر پر پابندی عائد ہے ۔ مقبوضہ وادی کے بیش تر اضلاع میں بدترین کرفیونافذ ہے ۔ بھارتی حکومت کی جانب سے بھاری تعداد میں فورسز کشمیر میں ممکنہ عوامی ردعمل کو روکنے کے لیے تعینات ہیں ۔ ٹیلی فون ، انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی ذرائع مسدود ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر مسلسل گولہ باری کا سلسلہ جاری ہے جس کا نشانہ عام شہری بن رہے ہیں۔

اس تناز ع پر50 برس کے طویل وقفے کے بعد 16اگست 2019ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک اجلاس بھی منعقد ہوا لیکن اس کا کوئی اعلامیہ سامنے نہیں آیا۔ اس صورت حال میں کشمیری اپنے مستقبل کے بارے میں کافی پریشان اور مایوس ہیں۔ عالمی طاقتوں میں سے صرف چین نے بھارت کے حالیہ اقدام پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

پچھلے دنوں امریکی صدر ٹرمپ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش کر چکے ہیں، جسے بھارت نے ابتدائی طور پر مسترد کیا لیکن اس کے فوراً بعد کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی گئی۔اس کے بعد 20اگست کو امریکی صدر نے ایک بار پھر کہا کہ بھارت اور پاکستان کو مل کر کشمیر کا تنازع حل کرنا چاہیے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ اب کی بار دنیا میں طاقت کے اہم اور فیصلہ کن حیثیت کے حامل مراکز بھی اس مسئلے کی جانب متوجہ ہیں۔

تجربہ یہی ہے کہ تنازع کشمیر کے بارے میں زیادہ تر جذباتی تبصرے اور تجزیے کیے جاتے ہیں ۔ اب بھی ایسا ہی ہورہا ہے ، آرٹیکل370کے متعلق کافی کنفیوژن پھیلی ہوئی ہے۔اس سارے معاملے کی بہتر وضاحت وہی شخص کر سکتا ہے ، جو ریاست جموں کشمیر کے تنازع کے پس منظر ، اس کے جغرافیے ، خونی لکیر کے آر پار کی سیاست ، اس تنازع پر ہوئی پیش رفتوں اور دونوں اطراف میں گزشتہ برسوں میں ہونے والے آئینی ارتقاء سے واقف ہو۔

یہ سب چیزیں آزادکشمیر سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس منظور حسین گیلانی کے ہاں ہمیں ملتی ہیں ۔ انہوں نے اپنی پیدائش کے بعد عمرکا ایک معتدبہ حصہ ریاست کےبھارتی مقبوضہ حصے میں گزارا ، جو بھارت کے قبضے میں ہے۔پھر وہ آزادکشمیر چلے آئے ۔ تنازع کشمیر ان کی دلچسپی کامحوررہا ہے۔قومی اور بین الاقوامی فورمز پر ریاست جموں وکشمیر کے موضوع پر ان کی رائے معتبر سمجھی جاتی ہے۔ ہزاروں کشمیریوں کی طرح ان کا خاندان بھی لائن آف کنٹرول کے آر پار منقسم ہے۔ہم نے چند دن قبل منظور حسین گیلانی سے مظفرآباد میں واقع اُن کے گھر میں تفصیلی ملاقات کی اور کشمیر میں پیدا ہونے والی نئی صورت حال پر اُن سے بات چیت کی۔ اس گفتگو کا احوال پیش خدمت ہے۔

[pullquote]٭آپ نے جب 5 اگست 2019 کوبھارت کی جانب سے ریاست جموںکشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کی خبر سنی تو آپ کا ردعمل کیا تھا؟[/pullquote]

میرا بچپن سری نگر میں گزرا، پڑھائی اور پھر وکالت بھی وہاں کی ہے۔ عزیز رشتہ دار اور احباب کی بڑی تعداد اب بھی وہاں ہے۔ آنا جانا ہوتا رہاہے، مجھے کشمیر میں ہندوستان کی سیاست کرنے کے طریقے کا کافی اندازہ ہے اس لیے یہ خبر سن کرمجھے زیادہ حیرت نہیں ہوئی۔ ماضی میں بھی ہندوستان وقتاً فوقتاً ایسے کام کرتا رہا ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ کافی عرصے سے سرگوشیاں چل رہی تھیں کہ کچھ بڑا ہونے والا ہے۔ لوگوں کے اس بارے میں محض اندازے تھے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ بھارت کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے والا ہے، جس انداز میں وہاں فورسز تعینات کی جارہی تھیں اور کشمیریوں کی مین اسٹریم کی قیادت کو نظر بند کیا جا رہا تھا، ہندوستانی حکومت کو پتا تھا کہ کشمیری اس معاملے میں کتنے حساس ،نڈر اور بے خوف ہیں۔ جونہی اُن کو پتا چلے گا تو وہ سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ لیکن میں بالکل بھی حیران نہیں تھا، اس لیے کہ یہ معاملہ تحریک کا ہے، آئین کے الفاظ بدل دینے سے تحریک نہیں بدلتی ۔ میری شروع ہی سے یہ رائے تھی کہ ہندوستان والے 370کو مکمل طور پر ختم نہیں کریں گے ، وہ کسی نہ کسی درجے میں آئینی جواز ضرور رکھ لیتے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ وہ اس ایکٹ کو مرحلہ وار کچھ اس طرح سے ختم کریں گے کہ کام بھی ہو جائے اور انگشت نمائی بھی نہ ہو۔ اس وقت کشمیر میں ہندوستان کے خلاف لوگوں کوجو پروٹیکشن تھی، وہ 35 اے ہی تھی کیونکہ وہاں کوئی بھی غیر کشمیری باشندہ غیر منقولہ جائیداد نہیں لے سکتا تھا۔ ہاںاب آئین میں ترمیم کر کےپہلے وہ جو کچھ بالواسطہ طور پر کرتے تھے اب براہ راست کریں گے۔

 

[pullquote]٭کیا آپ کو بھارت کے اس اقدام کے بعد کوئی نئی تحریک جنم لیتی دکھائی دیتی ہے یا قصہ تمام ہو گیا؟[/pullquote]

اب پہلے سے زیادہ مؤثر طریقے سے تحریک چلے گی ، اس لیے کہ کشمیریوں کا کاز ایسے موڑ پر آچکا ہے جسے دنیا پذیرائی دے گی، ان کے حقوق سلب کر لیے گئے، راتوں رات گلیوں میں فوج کے پہرے لگا دیے گئے ، ان کے لیڈروں کو قید کر دیا گیا۔ جو لوگ کہتے تھے کہ 370اور35 اے بحال رہنا چاہیے،دوسرے لفظوں میں وہ ہندوستانی آئین کو سپورٹ کر رہے تھے، ان کی پذیرائی اب زیادہ ہو گئی ہے۔ دنیا کشمیر کو مسلمان اور ہندو کے مسئلے کے طور پر نہیں بلکہ انسانی حقوق کے حوالے سے دیکھتی ہے،اقوام متحدہ کی قراردادوں کے حوالے سے دیکھتی ہے۔ہندوستان نے تو اقوام متحدہ کو بھی ناک آؤٹ کر دیا، انہوںنے اپنے آئین کا بھی حلیہ بگاڑ دیا، لوگوں کی مرضی کی پروا بھی نہیں کی ، اب تو اس تحریک کے رُکنے کا سوال پیدا نہیں ہوگا۔

میں تو کہتا ہوں یہ خیرِ مستور (Blessing in disguise) ہے ۔ میرا تجربہ ہے جب بھی مسئلہ کشمیر مدھم ہونے لگتا ہے تو ہندوستان کوئی ایسا کام کر دیتا ہے کہ تحریک کو نیا جنم مل جاتا ہے ۔ برہان وانی والامعاملہ ہی دیکھ لیں۔ایک نوجوان جس کا اتنا بڑا کنٹریبیوشن بھی نہیں تھا، لیکن لوگوں میںاس کی پذیرائی تھی، اس کے قتل پر کتنا بڑا ردعمل آیا، جب امرناتھ کے لیے زمین دینے کا مسئلہ بھی ایک تہلکے کا سبب بن گیاتھا۔میرے بچپن میں جب مُوئے مقدس چھپایا گیا تو اس وقت اچانک مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔تو یہ چیز رُکنے والی نہیں ۔

[pullquote]٭ لوگوں میں یہ کنفیوژن ہے کہ آیا آرٹیکل370 مکمل طورپرختم کیا جا چکا ا یا اس میں ترمیم ہوئی ۔ پس منظر کے ساتھ اس الجھاؤ کی وضاحت کردیجیے ؟[/pullquote]

ہندوستان اور ریاست جموں وکشمیر کارشتہ آرٹیکل 370کے ذریعے ہے، یوں سمجھ لیجیے کہ یہ آرٹیکل ہندوستان اور ریاست جموںو کشمیر کے درمیان ایک پل ہے۔ یہ پُل اگر ٹوٹ جاتا ہے تو اُن کا رشتہ بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ 370 کو ڈیزائن کرنے کے لیے اس وقت جموں کشمیر کی نیشنل کانفرنس کی حکومت کی طرف سے چار نمائندے انڈیا کی آئین ساز اسمبلی میں بھیجے گئے تھے، شیخ عبداللہ صاحب کے مشورے سے 370بنایا گیا تھا ۔ انہوں نے ہندوستان سے کہا تھا کہ جب تک کوئی ایسا رستہ نہیں نکالیں گے جس کے ذریعے ہم اپنے لوگوں کو مطمئن کر سکیں تو ہندوستان کے ساتھ رہنا مشکل ہو جائے گا، تو انہیں کہا گیا کہ ہم ایک ایسا آرٹیکل ڈیزائن کریں گے ،جس کی روشنی میں آپ پر ہندوستان کا آئین بھی پوری طرح نافذ نہیں ہو گا اور ہمارے ساتھ آپ کی ریاست کا رشتہ بھی قائم ہو جائے گا۔ یوں370 ڈیزائن ہوا ۔ اس آرٹیکل کا پس منظر ریاست کے مہاراجہ ہری سنگھ کا الحاق نامہ ہے۔ یہ الحاق صرف تین چیزوں سیکیورٹی ، دفاع اور مواصلات کے لیے تھا، اس آرٹیکل میں واضح لکھا کہ ہندوستانی حکومت کو آئین کی صرف ان دفعات کو ریاست جموں و کشمیر میں نافذ کرنے کا اختیار ہو گا جو الحاق نامے میں موجود ہیں۔ اگر اس کے علاوہ کچھ کرنا ہو تو وہ ریاست جموں وکشمیر کی حکومت کی مشاورت سے کریں گے۔

یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ انڈیا کے آئین کے اس وقت کل 395 آرٹیکلز ہیں جن میں سے 286کشمیر میں پہلے ہی سے لاگو کر دیے گئے ہیں۔جو باقی رہتے ہیں ان میں سے 80 کے قریب آرٹیکلز ریاست جموںو کشمیر کے آئین میں بھی موجود ہیں۔ انڈیا کی یونائٹڈ گورنمنٹ کے 97سبجیکٹس ہیں ۔ ان میں سے 95تو ریاست جموں وکشمیر میں اڈاپٹ ہو چکی ہیں، تو باقی رہ کیاجاتا ہے؟اب وہ محض آئینی Cover لے رہے ہیں ۔

پس منظر کے بعد اب آتے ہیں حالیہ ترمیم کی جانب۔ 370میں ہندوستان کے اختیارات کو واضح کیا گیا تھا، اس کے علاوہ جو بھی اختیارات تھے ، وہ ریاستی اسمبلی کے تھے۔ انڈیا کے آئین میں ایک آرٹیکل 35 ہے، اس میں ریاستوں کے بارے میں کچھ چیزیں بیان کی گئی ہیں۔ چونکہ ریاست جموںو کشمیر کلی طور پر ہندوستان کے آئین کے تحت Govern نہیں ہوتی ہے، یعنی اس ترمیم سے پہلے بھارتی آئین کا وہ حصہ جو باقی ریاستوں پر اپلائی ہوتا ہے وہ ریاست جموں وکشمیر پر نہیں ہوتا تھا۔ انہوں نے کشمیر کو ڈیل کرنے کے لیے 370کے تحت ایک دفعہ35 اے رکھ دی ، یہ عملی طور پر مہاراجہ کشمیر کے سٹیٹ سبجیکٹ لاء کی تشکیل نو تھی۔یہ سمجھ لیجیے کہ 370ایک شیل ہے جس میں اگر کوئی کام کی شئے تھی وہ یہی 35اے تھی جو نکال دی گئی۔ گویا اس کی روح ختم کر دی گئی ہے۔اب ہوا یہ ہے کہ انہوں نے 370 کے تحت کشمیر کا مکمل انضمام کر لیا ہے۔اپنا مکمل آئین وہاں نافذ کر کیاسے اٹوٹ انگ بنا دیاہے۔

[pullquote]٭بھارت نے تازہ ترامیم کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی اور سٹیٹ سبجیکٹ لاء بھی معطل کردیا ، کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ایسی ہی غلطی پاکستان نے متنازع ریاست میں شامل ایک خطے گلگت بلتستان میں کی ہے؟[/pullquote]

بھارت کی راجیہ سبھا میںوزیرداخلہ امیت شاہ نے طنزیہ انداز میں کہا کہ پاکستان نے گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ لاء کو ختم کر دیا تواب ہمیں ایسا کرنے میں کیا حرج ہے۔ اس نے تو پاکستان کو زچ کرنے کے لئے ایسا کہا لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ آزادحکومت ریاست جموں وکشمیر شروع میں دو ڈویژن پر مشتمل تھی ، ایک آزادکشمیر اور دوسرا گلگت بلتستان، کراچی معائدے(1949) تک یہی سیٹ اپ تھا ۔ کراچی معائدے کے تحت حکومتِ آزادکشمیر نے گلگت بلتستان حکومت پاکستان کو سرنڈر کر دیا۔ میں اس فیصلے کے حق میں ہوں کیونکہ گلگت بلتستان آج بھی Governable نہیں ہے ، نہ آزادکشمیر کے لیے اور نہ ہی پاکستان اسے اس طرح سےGovern کر رہا ہے ، تو1947 ء یا 49ء میں کیا کرلیتا ۔ آزادکشمیر تو آج بھی اس خطے کا نظام نہیں چلا سکتا ۔ اگرچلائے گا بھی تو پاکستان ہی کے ذریعے سے ہی چلا سکے گا ، توپھر یہ فراڈ کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ زمینی حقیقت یہی ہے ، خواہشیں کچھ بھی ہوسکتی ہیں۔

دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب گلگت بلتستان کو الگ کر دیا گیا تو یہ پہلا بریک آؤٹ تھا اور اس نے بھارت کو جواز مہیا کر دیا ۔ دوسری بات یہ ہوئی کہ گلگت بلتستان میں کوئی جمہوری ڈھانچہ نہیں بن سکا۔ 1974ء تک تو کوئی نظام تھا ہی نہیں، پھرکچھ اشک شوئی ہو گئی لیکن اس کے بعد سست روی سے نظام چلتا رہا ۔ اس وجہ سے وہاں کے لوگ پس ماندگی کا شکار رہے۔ ایف سی سے لوگ نالاں تھے ۔پھر وہاں پاکستان بیوروکریسی کے لوگوں کو تعینات کیا جاتا رہا،انہوں نے مقامی لوگوں نے کو mishandle کرنا شروع کیا جس سے بالآخر بدنامی تو پاکستان ہی کی ہوئی ہے ۔ اس مس ہینڈلنگ میں سے ایک یہ بھی تھی کہ وہاں اسٹیٹ سبجیکٹ کے رولز کو معطل (inoperative) کر دیا گیا۔ میری شنید کے مطابق وہ کلی طور پر ختم یاrepeal نہیں کیے گئے ہیں لیکن بے اثر بنا دیے گئے ہیں ۔ مجھے وہاں کے ایک قانون دان نوشاد صاحب نے بھی بتایا کہ ختم تو نہیں ہوئے لیکن ان پر عمل بھی نہیں ہو رہا۔

اگر سلامتی کونسل میں گلگت کو لے کر سوال ہوا تو وہ پاکستان کے موقف کو بڑا ڈنٹ تو نہیںڈالے گا لیکن it is not in good taste۔ اگر ہم مشرقی پاکستان کے پناہ گزینوںکی جموں میں موجودگی پر اعتراض کرتے ہیں تو اس وقت جو لوگ پنجاب ، سندھ ، پختون خوا سے گلگت بلتستان میں زمین خریدتے ہیں تو ہمارے لیے مخالف کے اعتراض کا سامنا مشکل ہو جائے گا، ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، کیونکہ ریاست متنازع تھی ، جب تک اس کا معاملہ حل نہیں ہوتا تو اس کی ڈیموگرافی کو محفوظ رکھنا چاہیے تھا۔اگروہاں سٹیٹ سبجیکٹ لاء معطل ہے تواس کو بحال کر دینا چاہیے اور اگر ختم کر دیے گئے ہیں تو اس کو نئے سرے سے ترتیب دینا چاہیے۔

[pullquote]٭ بھارت نے آئین میں بڑی ترمیم کردی،آپ کی قانونی بصیرت کے مطابق اب ریاست جموں وکشمیر کا لیگل اسٹیٹس کیا ہے؟ ریاست اب کہاں کھڑی ہے؟[/pullquote]

انٹرویو نگار کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے

جس دن یہ واردات ہوئی تو میں پہلا آدمی تھاجس اس پر اپنی رائے دی تھی کہ آج ہندوستان کے اقدام کے بعد مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ کا الحاق ختم ہو چکا ہے اور اب ہندوستان دوبارہ 13 اگست1947 کی پوزیشن پر چلا گیاہے۔ اب ہندوستان کا ریاست جموں وکشمیر کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں رہا ۔ اس کی حیثیت اب ایک غیر آئینی طور پر قابض ملک کی ہے۔ کیونکہ تقسیم کے اصول کے مطابق ریاستوں کے مہاراجوں اور فرمانرواؤں نے الحاق کرنا تھا۔ریاست جموں وکشمیرکے حکمران نے تین چیزوں کی بنیاد پر بھارت سے الحاق کیا تھا ، اب بی جے پی حکومت نے وہ بھی ختم کر دیا ، اس کا مطلب ہے وہ معائدہ ختم ہو گیا۔ اس وقت ہندوستان کی فوج وہاں غاصب فوج کے طور پر موجود ہے ۔اب بھارت کا بین الاقوامی قانون یا قانون آزادیٔ ہند کے تحت وہاں موجودگی کاکوئی جواز نہیں ہے۔

ہندوستان نے جو نیا ایکٹ جاری کیا ہے اس کے دو حصے ہیں ،ایک ایگزیکٹو آرڈر ہے، جس کے تحت انہوں نے پرانے سارے آرڈرز ختم کر دیے۔ دوسرا ہے ’’رِی آرگنائزیشن آف دی اسٹیٹ ایکٹ‘‘، جو راجیا سبھا اور لوک سبھا نے پاس کر کے انڈین پارلیمنٹ کا مستقل ایکٹ بنا دیا ہے اور انہوں نے نہ صرف مہاراجہ کے الحاق کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ انہوں نے ایک قدم آگے بڑھ کراپنے تئیں یونین ٹیریٹری میں آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی شامل کیا ہے اور لکھا کہ ہے اس حصے کی آزادی کے بعد اس کی 24 سیٹوں کا الیکشن ہو گا۔

[pullquote]٭اقوام متحدہ کی مشہور قراردادوں میں تو کشمیریوں کے لیے انڈیا یا پاکستان ہی کی آپشن ہے لیکن ان 70 سالوں میں کشمیر کے دونوں خطوں میں تھرڈ آپشن یعنی خودمختاری کی تحریک بھی ایک زمینی حقیقت کے طور پر سامنے آئی ہے ۔ کیا تھرڈ آپشن پر عمل ممکن ہے؟[/pullquote]

دیکھیں یہ بڑا المیہ ہے کہ 1948ء میں ہندوستان خود سلامتی کونسل میں گیا۔ سلامتی کونسل نے مہاراجہ کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کو نظرانداز کردیا ،میرے نقطۂ نظر سے اسے کالعدم قرار دے دیا۔ انہوں نے رائے شماری کی بات کی اور یہ کرانا انہی کی ذمہ داری تھی۔ اب کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر کی خودمختاری کا آپشن بھی ہونا چاہیے تھا، بالکل ہونا چاہیے تھا ، اگر وہ رکھتے تو بڑی اچھی بات تھی، لیکن انڈین انڈیپنڈنٹ ایکٹ کے تحت شرط ہی یہی تھی کہ آپ ہندوستان کے ساتھ جائیں گے یا پاکستان کے ساتھ، لیکن خیال اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ علاقے آپس میں ملتے جلتے ہوں(جغرافیائی ربط)اور وہاں کی مذہبی بُنت (Religious composition) کا خیال رکھنا ہو گا ، لیکن سب کچھ اس کے خلاف ہوا تھا۔

اب تیسری آپشن یعنی ریاست کی مکمل خودمختاری کی مانگ بھی زمینی حقیقت کے طور پر سامنے آ گئی ہے۔ لوگوں کے خودمختار کشمیر کے حق میں جذبات ہیں ، لیکن یہ سمجھنا چاہیے کہ جو لوگ آزادکشمیر میں خودمختار کشمیر کے حامی ہیں،ان کا ہندوستان کے خلاف ہونا تو پکی بات ہے لیکن وہ پاکستان کے خلاف نہیں ہیں۔خودمختاری کی بات کرنے والوں کو ملک دشمن سمجھنا درست نہیں۔پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ جب کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں گے تو الحاق کی شرائط ان کی مرضی کے مطابق ہوں گی، اس وقت کشمیری یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ فیڈرٹنگ یونٹ بنیں گے، آپ کا صوبہ نہیں بنیں گے بلکہ ہم الگ ملک بنیں گے لیکن کنفڈریشن آپ کے ساتھ کریں گے۔ امکانات کئی طرح کے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر پاکستان ہی کے حق ہی میں ہیں۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ ہمارا اسٹیٹس وہی ہو گا جو مہاراجہ کے زمانے میں تھا تو پاکستان کی تو اس بارے میں کمٹمنٹ ہے۔ فی الحال اس جانب توجہ رکھنی چاہیے کہ ہندوستان کے مقبوضہ حصے کو پہلے آزادی دلانی ہے۔ یہاں توآرٹیکل 257کی سو فی صد گارنٹی ہے۔

[pullquote]٭ قائداعظم محمد علی جناح کے سیکرٹری اور بعد میں آزادکشمیر کے صدر رہنے والے رہنما کے۔ ایچ خورشید نے تجویز پیش کی تھی کہ پاکستان آزادکشمیر کی حکومت کو باقاعدہ طور پر ریاست کی’نمائندہ آزادحکومت ‘تسلیم کرے اور دیگر دوست ممالک بھی ایسا کریں تو کشمیری انصاف کےعالمی ایوانوںمیںاپنا کیس خود لڑنے کے قابل ہو جائیں گے ۔ کیا آپ کے۔ایچ خورشید فارمولے کوقابل عمل سمجھتے ہیں؟[/pullquote]

کے ایچ خورشید کا آئیڈیابلاشبہ بہت نوبل ہے، لیکن اس کی نوبیلٹی 24اکتوبر کی قرارداد سے جڑی ہوئی ہے۔ 24 اکتوبر کو جو آزادکشمیر حکومت کا ڈیکلریشن جاری ہوا، اس کے مطابق یہ عملی طور پر ایک’ آزادحکومت ‘تھی۔نظری طور پر یہی تھا ، عملی طور پر کیا تھا، میں اس کی تفصیل میںنہیں جاؤں گا۔ لیکن بعد میں جب اقوام متحدہ کی قرارداد آئی تو 24اکتوبر کا معاملہ dilute ہو گیا۔ اقوام متحدہ نے یہ نہیں کہا کہ یہ آزادحکومت نہیں لیکن انہوں نے اسے لوکل اتھارٹی قرار دے دیا۔لوکل اتھارٹی کا مطلب یہی ہے کہ یہ آزادحکومت نہیں ہے۔ یہی بات مہاراجہ کے بھارت کے ساتھ الحاق کے معاملے میں بھی ہے۔ اس کے بعد سیکیورٹی کونسل نے رائے شماری کے ذریعے فیصلے بات کی اور کہا کہ اس کے تحت ریاست کے سبھی خطوں کے مستقبل کا فیصلہ ہو گا۔

خورشید صاحب کا آئیڈیا اگر اس وقت (یعنی 24اکتوبر1947کے آس پاس)سامنے آتا تو یہ سوفی درست آئیڈیا تھا کیونکہ اس حکومت کا آغاز ویسا ہی ہوا تھا یعنی ’باقاعدہ آزادحکومت‘۔ لیکن جس وقت اقوام متحدہ کی قراردادیں سامنے آ گئیں تو اس کے بعد اگر ہم خورشید صاحب کے آئیڈیے کو رُوبہ عمل کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہو گا کہ ہم اقوام متحدہ کی قراردادوں سے بھاگ رہے ہیں۔ اس لیے میں اُس فارمولے سے اختلاف کرتا ہوں ۔اس خطے کو ایک اسٹیٹس (لوکل اتھارٹی) مل گیا ہے۔ اب اگر پاکستان ایسا کرے گا تو وہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے خلاف جانے والا اور کشمیر میں مداخلت کرنے والا شمار ہو سکتا ہے۔

[pullquote]٭ایک اور کنفیوژن بھی کافی عام ہے ، وہ یہ کہ تنازع کشمیر سیاسی مسئلہ ہے یا پھر محض انسانی حقوق کا معاملہ ہے، آپ کیا کہتے ہیں؟[/pullquote]

دیکھیں میں ایک وکیل اور قانون کے طالب علم کی حیثیت سے یہ کہوں گا کہ یہ قانون کا مسئلہ ہے ۔ قانون میں انسانی حقوق بھی آتے ہیں ،اس کا سیاست سے بھی گہرا ربط ہے ۔ بنیادی طور پر یہ قانون کا مسئلہ کیوں کہ یہ قانون آزادی ہند پر مکمل عمل نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ یہ اقوام متحدہ کی جانب سے منظور کی گئی قرار دادوں کو مسترد کرنے سے پیدا ہوا ہے ، اس لیے یہ قانون کا سوال ہے۔لیگل سوال کو فریقین خود بیٹھ کر طے کر سکتے ہیں یا اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں وہ حل ہو سکتاہے۔ جس وقت مشرقی تیمور سے پرتگال کی فوجیں نکلی تھیں تو فوری طور پر انڈونیشیا کی فورسز نے وہاں قبضہ کر لیا لیکن دو ماہ بعد ان کو وہاں سے نکال دیا گیا اور وہاں امن بحال کرنے والی فورسز آ گئیں۔ اس وقت کشمیر کی بالکل ویسی ہی صورت حال ہے۔ بھارت نے آئین بدل دیا ،قانون بدل دیا ۔ حالانکہ قانون لوگوں کی ضرورت کے تحت ان کی خواہشات سے بنتا ہے ۔ اگر وہ اس کو پسند ہی نہیں کرتے تو آپ اسے کیسے ان پر تھوپ سکتے ہیں ۔ اس اقدام کے بعد بھارت میں انتشار پھیلے تھا ۔

[pullquote]٭بھارت میں آرٹیکل 370میں ترمیم کے بعد وہاں کی اپوزیشن کی پارٹیاں اور لبرل و بائیں بازو سے وابستہ گروپس حکومت کے اس اقدام کے خلاف مسلسل مظاہروںکو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟[/pullquote]

ہمارے برصغیر کے سیاستدانوں کا معاملہ یہ ہے کہ یہ پارٹی کی یا ذاتی سیاست کرتے ہیں، قومی سیاست نہیں کرتے جو چیزیں ان کو اقتدارمیں اچھی لگتی ہیں۔ اپوزیشن میں وہی بُری لگنے لگتی ہیں۔ ہندوستان میں بھی قریب ایسا ہی حال ہے جو یہاں ہے،لیکن وہاں فرق یہ ہے کہ جمہوریت اورآئین کی بالادستی مستحکم ہو گئی ہے اور لوگوں کا آئین پر پختہ یقین ہے۔ وہاں جو لوگ بولتے ہیں وہcoviction کے حوالے سے بولتے ہیں، کانگریس توایک ڈاواں ڈول قسم کی پارٹی ہے لیکن وہ ہمیشہ یہ کہتی رہی ہے کہ ہمارا کشمیر کے ساتھ تعلق 370 ہی کے تحت ہے ، گو کہ اس آرٹیکل کو کھوکھلا کرنے میں ان کا زیادہ حصہ ہے۔ بائیں بازو کی جتنی پارٹیاں بھارتی حکومت کے اس اقدام کے خلاف بول رہی ہیں ،وہ دراصل فرنچائز کے حق میں بول رہی ہیں۔ ہندوستان کو ایک نئی پریشانی یہ لاحق ہو گئی ہے کہ نارتھ کی جتنی ریاستیں بھی ہیں، ان سب کو 370 اور 35اے ملتی جلتی گارنٹی میسر ہے۔ انہیں خدشہ پڑ گیا ہے کہ اب ہمارے ساتھ بھی یہی ہو گا، وہاں سے بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ مودی نے اداروں پر اپنی گرِپ اتنی مضبوط کر دی ہے کہ اگر پارلیمنٹ میں مودی مخالف اکثریت آ بھی جائے تو بھی وہ اپنی جان کے خوف سے کچھ نہیں کریں گے ۔

[pullquote]٭عالمی فورمز پر کشمیریوں کیلئے پاکستان کی وکالت کیونکر مؤثر ہو سکتی ہے؟ طریقہ کار میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے؟[/pullquote]

میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ اگر اس وقت کشمیریوں کی آزادی کے حوالے سے مؤثر اور بلند آہنگ وکیل ہے تو وہ پاکستان ہی ہے۔ لیکن اس کی وکالت سفارت کاری کے ذریعے ہو سکتی ہے۔ابھی ہم نے دیکھ لیا ہے کہ سوائے چین کے کوئی ملک سامنے نہیں آیا۔ مشرق وسطیٰ کے مسلمان ممالک تو خاموش بیٹھے ہیں۔ پاکستان کا دنیا میں کوئی اثر رسوخ نہیں رہا۔پچھلے دنوں شاہ محمود قریشی نے بھی یہی بات کہی کہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ ہم وہاں سلامتی کونسل میں جائیں گے تو لوگ وہاں ہمارے استقبال میں ہار لے کر کھڑے ہوں گے، مشکلات ہیں ۔ سفارت کاری کے حوالے سے پاکستان کے امیج کرائسز ہیں، یہ کرائسز بھی بڑے ملکوں نے بنائی ہیں۔ میں جب بھی کسی یونیورسٹی یا ایڈمنسٹریٹو اسٹاف کالج میں جاتا ہو تو یہی کہتا ہوں کہ پاکستان ہی کشمیر کے بارے میں کچھ کر سکتا ہے لیکن پاکستان اس وقت تک مؤثر ثابت نہیں ہو سکتا جب تک اس میں سیاسی استحکام پیدانہیں ہو جاتا اور سیاسی استحکام ہی کے ساتھ یہاں ہر معاشی خوشحالی ممکن ہو گی ۔ معاشی خوشحالی ہی سے اس کا دنیا میں امیج بن سکے گا اور سفارت کاری مؤثر ہو گی ۔

[pullquote]٭ اس تنازع کی حساسیت کوسامنے رکھتے ہوئے بنیادی فریق یعنی کشمیریوں کو کیا کردار دیا جا سکتا ہے؟[/pullquote]

اس کا حل میرے نزدیک یہ ہے کہ چونکہ ریاست کے اس حصے میں جو آزادکشمیر کہلاتا ہے ، غیر متنازع الیکشن ہوتے ہیں ، لہٰذا اِس جانب کے چیف ایگزیکٹو یعنی منتخب وزیر اعظم کو پاکستان پوری ریاست جموں کشمیر کا نمائندہ (envoy)تسلیم کرنے کا اعلان کرے ۔ اور دوسرا کام یہ کیا جائے کہ دنیا کے سبھی اہم دارالحکومتوں میں قائم پاکستانی سفارت خانوں میں کشمیر ڈیسک قائم کر دیے جائیں ۔ کشمیری اس ڈیسک کے ذریعے دنیا کے ساتھ کارسپانڈ کریں۔دوسری بات جو میں نے چند دن قبل یہاں آزادکشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے ممبراان سے کہی تھی، وہ یہ کہ آپ دنیابھر میں موجود اسٹیٹ سبجیکٹس(کشمیری باشندوں) کی ڈائریکٹری بنائیں ،چاہے وہ جس مذہب کے ماننے والے ہوں۔ اس ڈائریکٹری کی بنیاد پر بعد میں ایک الیکٹرانک ریفرنڈم کرائیں ۔ اس طرح ایک ایکٹویٹی Gear-up ہو جائے گی ۔ ایک اور بات یہ کہ جب ہم زمینی حقائق کی بات کرتے ہیں تو نوے فی صد آزادکشمیر پاکستان کے ساتھ ہے اور جو دس فی صد ہیں وہ بھی پاکستان کے خلاف نہیں۔ جموں کی بڑی اکثریت انڈیا کے حق میں ہے اور اینٹی پاکستان ہے ۔ لداخ کا کوئی خاص رول نہیں رہا ہے لیکن وہ انڈیا ہی کی طرف مائل ہو گا۔ گلگت بلتستان سو فی صد پاکستان کے ساتھ ہے۔ وادی کی بات البتہ الگ ہے، وہ بھارت کے خلاف ضرور ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ وہ خودمختاری چاہتے ہیں یا پاکستان میں انضمام ، اس کا فیصلہ ہونا ہے۔

اگر پاکستان کشمیریوں کو آگے کر کے ان کی پشت پر کھڑا ہو تو بہترنتائج آسکتے ہیں، ابھی آزادکشمیر کے آئین میں کی گئی تیرھویں ترمیم میں یہی لکھا ہے کہ آزادکشمیر حکومت کی یہ ذمہ داری ہو گی وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق دنیا میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرے ۔ اس لیے آزاد کشمیر کے وزیراعظم یا صدر کو کشمیر کامنتخب نمائندہ تسلیم کر لیا جانا چاہیے ،لوگ متاثرہ فریق کی بات سب سنیں گے، ہمارے پاس جو آزادکشمیر کا صدر (مسعودخان)ہ ے ،یہ بڑا ٹرینڈ آدمی ہے ، سب اداروں میں کام کر چکا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ سروس مائنڈڈ آدمی ہے لیکن بہرحالvocal آدمی ہے، پروسیجرز کو سمجھتا ہے، اگر آزادکشمیر کے صدر کی بجائے اسے پاکستان کشمیر پر دنیا بھر کے لیے اپنا خصوصی نمائندہ بنا دیتاتو ہمارے لیے زیادہ عزت کی بات تھی۔ وزیراعظم منتخب آدمی ہو تا ہے، اسے بنا دیا جائے تو میرے خیال میں اس میںزیادہ وزن ہوگا۔ متاثرہ فریق سامنے رہنا چاہیے، پاکستان چونکہ دعوے دار ہے، دعوے دار کے لیے ان معاملات میں داغداری ہو جاتی ہے۔ ایک بات اور میں کہہ سکتا ہوں ، اگر بھارتی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں پر مشتمل جلا وطن حکومت (Government in exile) بنائی جائے،کیونکہ موومنٹ وہیں ہے ، انہیں کوئی ملک Host کرنے کو بھی تیار ہو تو یہ بہترین چیز ہو جائے گی۔ میرے خیال میں یہ بہت بڑی سفارت کاری ہو گی ۔

[pullquote]٭ ماضی کا تجزیہ تو ہوتا رہے گا اور سوال بھی اٹھتے رہتے ہیں ، یہ بتائیے کہ اس وقت فوری طور پر کرنے کے کام کیا ہیں؟[/pullquote]

دیکھیں کشمیر میں جو کچھ بھی ہو ،اظہار ہمدردی کرنے سب لوگ ہمارے(یعنی آزادکشمیر والوں کے) پاس آتے ہیں ، حکومت والے بھی اور اپوزیشن والے بھی ، وہ ہمیں یقین دہانی کرواتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں۔اگروہ ہمارے ساتھ ہیں تو ہمیں تھوڑا سا Role بھی دے دیں۔ پاکستان کو فوری طور پر سلامتی کونسل میں جانا چاہیے لیکن اس کے لیے بھی ہوم ورک کئےجانا چاہیے اور وہاں اٹھائے جانے والے ممکنہ سوالات کے جوابات تیار رکھنے چاہییں ۔(سلامتی کونسل کا اجلاس ہو چکا، اس پیش رفت سے متعلق گیلانی صاحب کی رائے اسی انٹرویو میں ذراآگے شامل کر دی گئی ہے۔ انٹرویونگار) مجھے تو ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش میں بھی سازش محسوس ہوتی ہے، یہ سب مودی کی فرمائش پر ہوا ۔پھر مودی نے فوراً کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی۔ اب وہ امریکا سے ثالثی کروا کے کہے گا کہ ہمیں پاکستانی کشمیر اور گلگت بلتستان واپس دلوائیں۔ لیکن ہمیں اس کے لیے مکمل طور پر تیار ہو کر جانا چاہیے۔ یہ نہ کہیں کہ ہمیں سرپرائز کا سامنا کرنا پڑا ۔ دوسری بات وہی کہ پاکستان کی ہر ایمبیسی میں کشمیر ڈیسک قائم کیا جائے۔ کشمیریوں کو موقع دیں کہ وہ ان ڈیسکوں کو منیج کریں۔ اس کا لیڈ رول آزادکشمیر کے منتخب نمائندے کو دیا جائے۔جلا وطن حکومت کے قیام کی تجویز میں پہلے ہی دے چکا ہوں کہ وہ بہترین سفارتی پیش رفت ہوگی۔

[pullquote]٭ آپ کا تعلق ریاست کے دونوں طرف منقسم خاندان سےہے، اپنا خالص احساس بتائیے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کے بٹے ہوئے خاندان پھر سے مل سکیں گے ؟[/pullquote]

دیکھیں !(سرد آہ بھرتے ہوئے) اگرنریندرا مودی برسراقتدار رہتا ہے تو بالکل بھی نہیں۔ کیونکہ اس نے تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ دوقومی نظریے کو درست ثابت کرے گااور وہاں ہندو راشٹریہ بنانے کی سرتوڑ کوشش کرے گا۔ہاں دنیا کا کوئی پریشر بن جائے یا قدرت کی طرف سے کوئی ایسے حالات پیدا ہو جائیںتو الگ بات ہے ۔ مجھے نہیں لگتا کہ فوری طورپرکچھ اچھا ہوگا ۔

[pullquote]ہندوستان نے 370 کے تحت ترمیم کر کے اسی کے خاتمے کی راہ نکالی ہے[/pullquote]

ہندوستان کی حکومت کی جانب سے آئین میں جو ترمیم ہوئی ہے، اس میں تین چیزیں اہم ہیں:پہلی یہ کہ انہوں اب ریاست جموں وکشمیر میں ہندوستان کا آئین مِن وعَن نافذ کر دیا ہے،دوسری یہ کہ گورنرکو عملی طورپر ریاست کی حکومت کے مماثل اختیار کا حامل قرار دیا گیا ہے اورتیسری بڑی خطرناک اور خوفناک چیز ایک اور ہے ،جس کے تحت انہوں نے آرٹیکل 370کو ختم کرنے کا راستہ ہموا ر کیا ہے۔ پہلے یہ تھا کہ صدر 370 کو اسی صورت میں منسوخ کر سکتا ہے اگر ریاستی اسمبلی ایسا تجویز کرے۔چونکہ وہاں اب آئین ساز اسمبلی ختم ہو چکی ہے جس نے 370کو بحال رکھا ہوا تھا۔اب انہوں نے یہ لکھ دیا ہے کہ آئین ساز اسمبلی سے مراد ریاست جموں کشمیر کی’’ قانون ساز اسمبلی ‘‘ہے، اب جب بھی قانون ساز اسمبلی بنے گی ، وہ ایک قراردادہندوستان کے صدر کو move کرے گی ،جس میں 370ختم کرنے کی تجویز ہو گی اور اس طرح وہ لپیٹ دیا جائے گا۔گویااس اقدام کے ذریعے انہوں نے 370میں ترمیم سے اسی کے خاتمے کی راہ نکالی ہے۔ یہ بڑی خوفناک بات ہے۔

[pullquote]ہندوستان اور پاکستان اگر کسی پُر امن حل پرمتفق ہو جائیں تو یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی نہیں ہوگی [/pullquote]

یہاں ایک اور بات یاد رکھنی چاہیے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کشمیریوں کے پاس صرف دو آپشن ہیں لیکن خودمختاری بھی ایک زمینی حقیقت ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں اس کے چارٹر کے مطابق ہیں لیکن یہ قراردادیں کبھی حتمی نہیں ہوتیں۔ اگر فریقین یا متحارب ممالک کے درمیان باہمی اتفاق سے کوئی معاملہ طے پا جاتا ہے تو اقوام متحدہ اسے تسلیم کر لیتی ہے جیسا کہ شملہ معائدے کے بارے میں ہوا اور اسے دونوں ملکوںکی درخواست پر رجسٹر کر لیا گیا۔ اب اگر انڈیا اور پاکستان ویلی آف کشمیر کے بارے میں اس حل پر متفق ہو جائیں کہ ہم اسے خودمختار قرار دے دیتے تو یہ بھی ہو سکتا ہے اور پھر اس حل کو اقوام متحدہ میں رجسٹر کروا دیں۔ سیکورٹی کونسل کی ایک قرار داد یہ بھی ہے کہ اگر انڈیا اور پاکستان کشمیر کے مسئلے پر کسی اور پُر امن حل پر متفق ہو جاتے ہیں تو اسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف ورزی نہیں سمجھا جائے گا۔ یعنی بھارت اور پاکستان اس نکتے پر بھی جمع ہو سکتے ہیںکہ جہاں جہاں جھگڑا نہیں ہے وہاں اسٹیٹس کو برقرار رکھا جائے اور جہاں جھگڑا ہے اس کو ہم خودمختاری دے دیتے ہیں۔

[pullquote]سلامتی کونسل کا حالیہ اجلاس اہم پیش رفت ہے[/pullquote]

16اگست 2019ء سلامتی کونسل کا اجلاس ہونا ایک پیش رفت ہے ۔ عام طور پر جب کوئی ملک شکایت کرتا ہے تو اجلاس تک نوبت ہی نہیں آتی ہے ،۔ پہلے تین مستقل رکن ممالک امریکا ، برطانیہ اور فرانس فیصلہ کرتے ہیں ، پھر باقی دو کو بلاتے ہیں ۔ یہun-written پریکٹس ہے ۔ یہ طے کرتے ہیں کسی معاملے کا اجلاس بلاناچاہیے یا نہیں ۔ جب پانچ کا اتفاق ہو جائے تو پھر باقی غیر مستقل ارکان کو بھی بلالیتے ہیں۔ یہ بڑی پیش رفت ہے کہ اس معاملے پر اجلاس بلایا گیا، البتہ اگر اس کا علامیہ جاری کر دیتے تو بہت اچھی بات تھی ۔ اگر نہیں کیا تو اس سے پہلے سلامتی کونسل کے سیکرٹری جنرل کے نمائندے جو بیان دیاتھا، وہ بہت حوصلہ افزاء بات ہے ، اس اجلاس کو اسی کے تسلسل میں سمجھا جائے گا۔

[pullquote]ہندوستان نے کشمیر کے لیے نئے ’ری آرگنائزیشن ایکٹ‘پر کافی محنت سے کام کیا، المیہ ہے کہ ہم مکمل طور پر بے خبر رہے [/pullquote]

میں نے ہندوستان کا نیا ’’ری آرگنائزیشن ایکٹ‘‘ پڑھا ہے ۔ وہ انہوں نے بہت عرق ریزی سے بنایا ہے۔ مجھے شک ہے کہ انہوں نے ووٹر لسٹیں بھی تیار کی ہوں گی کیونکہ اس ایکٹ میں انہوں نے حلقہ ہائے انتخاب(constituencies) کو بھی بدل دیا ہے۔ یہ بھی لکھا ہے کہ وہ کسی ضلعے ، تحصیل یا گاؤں کا نام بھی بدل سکتے ہیں۔ اب نومبر میں الیکشن ہونے والا ہے، وہاں شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب کی سیٹیں بھی رکھ دی گئی ہیں ، اب یہ سسٹم مسلمانوں میں تونہیں ہے ، اس کا فائدہ بھی حتمی طور پر ہندوؤں کو ملے گا۔انہوں نے سیٹوں کی تعداد 107 سے بڑھا کر 114 کر دی ہے۔ جموں میں بسنے والے مشرقی پاکستان کے مہاجرین کے ووٹ کا فائدہ بھی وہ اٹھائیں گے ۔ بڑی بدقسمتی کی بات ہے ہماری طرف سے اس سارے عمل پر نگاہ نہیں رکھی گئی۔کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا ان کا منصوبہ پچاس کی دہائی سے ہے اور اسی بنیاد پروہ الیکشن بھی لڑتے رہے ۔ جب یہاں آزادکشمیر میں لبریشن سیل بنا تھا تو ہندوستان کے وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ آپ کا یہ اقدام شملہ معائدے کے مغائر ہے اور ہم ہیں کہ معاملے کا ادراک ہی نہ کر سکے۔

[pullquote]جسٹس(ر )منظور حسین گیلانی کون ہیں؟[/pullquote]

(جسٹس(ر )منظور حسین گیلانی 7جون 1945ء کو مقبوضہ کشمیر کی تحصیل تحصیل کرناہ میں پیدا ہوئے۔ وہ ابھی کم سن ہی تھے کہ والدین آزادکشمیر ہجرت کر گئے تو ان کی پرورش ننھیال میں ہوئی، ابتدائی تعلیم شیرکشمیرہائی سکول کنڈی کرناہ، ضلع کپواڑہ اور گریجویشن گورنمنٹ ڈگری کالج بارہمولہ سے کی ۔ ایل ایل بی کی ڈگری علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، انڈیاسے 1970ء میں نمایاں پوزیشن کے ساتھ حاصل کی۔ منظور حسین گیلانی 1970 ء ہی میں ہائی کورٹ سری نگر میں بطور وکیل اِن رول ہوئے ۔ 1971ء میں انڈر سیکریٹری محکمہ قانون ریاست جموں وکشمیر منتخب ہوئے لیکن 1973ء میں اس عہدے سے مستعفی ہو کر دوبارہ جموں کشمیر ہائی کورٹ، سری نگر میں پریکٹس شروع کر دی جو 1976ء تک جاری رہی۔

1976ء میں ہجرت کر کے آزادکشمیر میں اپنے والدین کے پاس آ گئے۔ 1977ء سے 1986ء تک بطور ایڈووکیٹ ہائی کورٹ و سپریم کورٹ وکالت کی ۔ 1986ء سے 1990ء تک ایڈوکیٹ جنرل آزادکشمیر کے عہدے پر فائز رہے۔1991ء سے2004ء تک آزادکشمیر ہائی کورٹ کے جج اور چیف جسٹس جبکہ 2004ء سے 2010ء کے دورانیے میں آزادکشمیر سپریم کورٹ کے جج اور چیف جسٹس رہے۔ 2010ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد Associasion for the Rights of People of Jammu& Kashmir کے نام سے تھنک ٹینک کی بنیاد ڈال کر اس کے چیئرمین کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ منظور حسین گیلانی اپنی سروس کے دوران بے شمار ملکی اور بین الاقوامی کانفرنسز میں آزادکشمیر اور پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ پاکستان کے مختلف تھنک ٹینکس کے ممبر ہیں اور یونیورسٹیوں اورایڈمنسٹریٹو اسٹاف کالجز میں کشمیریات کے ماہر کے طور پر لیکچر دیتے ہیں۔

منظور گیلانی پانچ کتابوں کے مصنف ہیں اور قومی اخبارات او رسائل میں سینکڑوں کالم لکھ چکے ہیں اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔ ان کی کتابوں کے نام Constitutional Development in Azad Jammu and Kashmir ، Administration of Justice in Azad Jammu and Kashmir ،روزن خیال سے (کالم) اور خود نوشت سوانح حیات ’’میزان زیست‘‘ ہیں۔ آزادکشمیر کے آئینی ارتقاء سے متعلق ان کی کتاب کا اضافہ شدہ ایڈیشن حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ )

(یہ انٹرویو 25 اگست 2019 کو روزنامہ 92 نیوز کے سنڈے میگزین میں‌ شائع ہوا ، 92 نیوز کے شکریہ کے ساتھ یہاں شائع کیا گیا)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے