تنازع کشمیر، اسٹبلشمنٹ اور جہادی گھوڑے

پاکستان میں بیٹھے جہادیوں کے چمچے ( چمچے لفظ بہ امرمجبوری استعمال کیا) اعتراض کرتے ہیں کہ عمران خان نے کشمیر کا سودا کردیا، کشمیر کا اسٹیٹس بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اندر کھاتے ڈیل کرکے بدل دیا جس سے کشمیر بھارت کا باقاعدہ حصہ بن گیا.

کشمیر جہاد کے نام پر لشکر طیبہ کے پروفیسر حافظ سعید اور جیش محمد کے مولانا مسعود اظہر نے قوم کے ہزاروں نوجوان مقبوضہ کشمیر میں شہید کروائے، چند سالوں میں اربوں روپے چندہ اکٹھا کیا اور اپنے لائف اسٹینڈر اونچے کیے، بڑے گھر، گاڑیاں، جائیدادیں، پروٹوکول، مزے ہی مزے..

نوے کی دہائی کے وسط اور آخر میں جہاد کشمیر ایک برانڈ ہوتاتھا، جہادی تنظیموں کے اجتماع سیاسی جلسوں سے زیادہ بڑے اور جوشیلے ہوا کرتے تھے، ملک بھر کے کونے کونے میں کشمیر میں شہید ہونے والے پاکستانی نوجوانوں کے جنازے ہوتے جہاں مزید نوجوان بھرتی کرنے کے علاوہ مالی امداد بھی اکٹھی کی جاتی تھی، مجاہد ( کسی بھی تنظیم سے وابستہ بالخصوص حکومت و اسٹیبلمشنٹ کی منظورِنظر) بھائی کو عوام اور سرکاری اداروں سے وہ پروٹوکول ملتا تھا جو الیکٹرانک میڈیا کے نام ور صحافیوں کو بھی نہیں ملتا، اجتماعات میں شرکت کے لیے بیرون ملک رہنے والے پاکستانی پاکستان آتے، وہاں سے جہاد فنڈ اکٹھا کرکے پاکستان بھیجا جاتا تھا، جس کا کبھی کوئی آڈٹ ہوسکا نہ ہوسکے گا. سوال کرنے والا امیر صاحب کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہوسکتا ہے اس لیے اپنے ایمان کی حفاظت کا خود خیال رکھیں.

نوے کی دہائی کے آخری سال جنرل پرویز مشرف نے آکر کشمیر پالیسی سے یوٹرن لیا، اس سے قبل کیا نوازشریف کیا بینظیر، بطور ریاستی سربراہ سب ہی کشمیر جہاد کے مددگار رہے، سرکاری طور پر پروٹوکول کے علاوہ خصوصی پیار محبت الگ سے دیاجاتارہا.

پرویزمشرف کے مارشل لاء کے بعد حافظ سعید وغیرہ پر پابندیاں لگیں، نظربندیاں کردی گئیں، جہادی تنظیمیں کالعدم قرار دی گئیں تو بھارت نے بھی وقتی سکھ کا سانس لیا کہ انسرجینسی (گھس بیٹھیے آتنگ وادیوں کے وادی میں داخلے) میں بہت کمی واقع ہوگئی، وقت کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان کا موقف بھی ڈھیلاہوتا چلاگیا کیونکہ پاکستان امریکی جنگ کا باقاعدہ حصہ بن بیٹھا تھا.

امریکی امداد اور دباؤ کے پیش نظر جہادیوں کو لگام ڈالنے کا کام زور و شور سے جاری رہا، یہاں تک کہ امریکہ کی "وار آن ٹیرر” پاکستان کے گلی کوچوں میں داخل ہوگئی، اور یہی امریکہ و بھارت کی دلی مراد تھی. پاکستان نے کشمیر جہاد کے خاتمے کیلیے ایل او سی پر باڑ بھی لگادی کہ بھارت کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ رہے اور وہ یکسو ہو کر پاکستان کے گلی کوچوں میں پراکسی وار لڑسکے، یوں جہادی کہانی اختتام کی طرف بڑھنے لگی.

پھر حکومت پاکستان کے مودی سے فیملی ٹرمز بنتے ہی دی اینڈ ہوگیا اور وہی پیپلزپارٹی اور نون لیگ جو کشمیر جہاد کے روحِ رواں حافظ سعید و مسعود اظہر کے علاوہ دیگر گروہوں کی سرکاری سرپرستی کرتی رہیں، اسٹیلشمنٹ کو طعنہ دینے لگیں کہ کشمیر جہاد کیلیے تیارکیے گئے افراد صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ کے لے پالک ہیں، اسی سلسلے میں اینٹی اسٹبلشمنٹ کا چورن بیچنے کیلیے ڈان لیکس اور ڈان لیکس پَلس جیسی حرکتیں کی گئی حالانکہ جہادیوں کو پالنے میں ہر سیاسی جماعت اسٹبلشمنٹ کی ہم نوا رہی ہے کیونکہ بھارت کو کشمیر کے محاذ پر مصروف رکھنے کیلیے اس پالیسی کو اہم ترین سمجھاجاتا تھا.

حافظ سعید، مسعود اظہر اور وغیرہ وغیرہ وغیرہ انہی حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے گھوڑے تھے، یہ حکومتیں کرنے والے اور جہادی میدان کے یہ پرائیویٹ گھوڑے آج بھی مزے میں ہیں لیکن قوم کے وہ نوجوان بھی کشمیر کی وادی میں جھونک دیے گئے جن کی ابھی مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں یعنی عمر اٹھارہ سال سے بھی کم تھی.

بچپن سے ہی کشمیر جہاد سے والہانہ لگاؤ اور شوق ہوا کرتا تھا، یونیورسٹی لائف میں جانے کے بعد تک بھی ان جماعتوں سے میل میلاپ جاری رہا، تب تک کے اندازے کے مطابق 4 ہزار سے زائد نوجوان جو کالجوں یونیورسٹیوں کے طلباء تھے، کچھ ایسے بھی تھے جو سکول لائف ہی میں کشمیر لانچ کیے گئے تھے، ان سب کی لاشیں وہیں دفن ہیں. کہاں!!؟ یہ معلوم نہیں.

ان ہزاروں کے علاوہ وہ جوان الگ ہیں جو یونیورسٹی، کالجز کے نہیں تھے، سرسری اندازے کے مطابق چار سے پانچ ہزار تعداد ان کی بھی تھی، جو معذور ( غازی) ہوئے وہ الگ، میرے دوکزن اور متعدد دوست نوجوانی میں کشمیر جہاد کیلیے گئے، دوبارہ واپس نہیں آئے، بہت سے ایسے بھی تھے جو والدین کی اکلوتی اولاد تھے. ان کے والدین اگر اجازت نہیں دیتے تھے تو ان کو سمجھایا جاتا کہ کشمیر جہاد زیادہ افضل ہے. آپ کا بیٹا روز قیامت 72 حوروں کو لیے آپ کے سمیت 70 لوگوں کی شفاعت کرے گا، شہید جنت کا پرندہ ہوتاہے، یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے.

الغرض ہرطرح کی ذہن سازی کرکے نوجوانوں, جوانوں کو کشمیر لانچ کیاجاتا، ایک دور میں کہا جاتاتھا کہ لشکر طیبہ کے پاکستان میں لاکھوں مجاہدین ہیں جو تربیت یافتہ ہیں.یہ صرف ایک جماعت کی بات ہے جس نے افغان جہاد کے بعد کشمیر جہاد کا علم اٹھایا.جماعت اسلامی کی طرف سے حزب المجاہدین کی طرف سے کتنے نوجوان شہید ہوئے، یہ اعدادو شمار الگ ہیں، جیش محمد، حرکت الجہاد الاسلامی، البدر، تحریک الجہاد الاسلامی اور دیگر تنظمیں الگ ہیں.

نوے کی دہائی میں نوجوانوں، جوانوں کی جہاد کیلیے بھرتی کے علاوہ بڑی عمر کے بہت سے افراد اپنی زندگی اور طاقت یہاں پاکستان میں ان تنظیموں کیلیے وقف کرتے رہے. یہاں تک کہ خواتین بھی دینی فریضہ سمجھ کر اپنی خدمات دی اکرتی تھیں.

رمضان میں کروڑوں چندہ اکٹھا کرنے کا ٹارگٹ ہوا کرتاتھا، مجھے آج بھی یاد ہے کہ جوش و جذبے سے سرشار ہو کر پرچیاں پکڑ کر گلی محلوں میں نکل جایا کرتا تھا، مقابلے میں دیگر کزنز اور دوست ہوتے تھے کہ کون سب سے زیادہ جہاد فنڈ اکٹھا کرکے لاتا ہے، ایک رمضان میں پانچ سو روپے سے زائد اکٹھے کرکے دیے تو خوشی کی انتہاء نہ تھی، تب پرچیاں پانچ دس اور پچاس والی ملتی تھییں، جبکہ جیب خرچ گھر سے پانچ روپے ملتا تھا جو بہت سمجھاجاتاتھا، پچاس روپے بطور چندہ بچوں کو کم ہی کوئی دیتا تھا، زیادہ تر پانچ دس دیتے تھے.

جہاد کیلیے چندہ مانگتے ہوئے میں کیا کیا احادیث و فضائل سنایا کرتا تھا یہ اب یاد بھی نہیں. اگر کبھی اس دوران بھوک لگتی یا لالچ پیدا ہوتا تھا کہ پیسے چوری کرلوں تو یاد آتا کہ حرام ہے، کشمیر میں لوگوں پر ظلم ہورہاہے ان کی مدد کرنے کیلئے مجاہد کو تیارکرنا ہے، یہ پیسے اس کے لیے ہیں، جو ایک مجاہد کے تیارکرکے بھیجتا ہے اس کو بھی اتنا ہی ثواب ملتا ہے، کیونکہ یہ ہر مسلمان کا فریضہ ہے کہ یا خود جہاد کیلئے جائے یا کسی کو تیار کرکے بھیجنے میں مدد کرے.

اندازہ کیجیے کہ نوے کی دہائی سے مشرف کے اس دور تک جب جہادی تنظیموں کے فنڈز اکٹھا کرنے پر پابندی لگی، کتنا چندہ اکٹھا ہوا ہوگا, بقر عید پر کھالیں اکٹھی کرنے کا جوش بھی الگ ہوتاتھا، ہزاروں لاکھوں کھالیں ملک بھر سے اکٹھی کرکے مجاہدین کی تیاری کیلئے دی جاتی تھیں. ان کے بدلے ملنے والے پیسے مجاہدین کو جاتے تھے، ملک بھر سے پاکستانی بغیر کسی مسلک و ذات برادری کے فرق سے پیسوں کے علاوہ اجناس بھی دیتے تھے تاکہ مجاہدین پیٹ بھر کر تیاری کرسکیں اور کشمیر کو آزاد کروایا جا سکے.

مشرف کے دور میں پابندی کے بعد بھی استاد المجاہدین کے نام سے مشہور شخصیات مزے کرتی رہیں، عوام کا لہو گرمایا جاتا رہا اور اندر کھاتے چندہ اکٹھا کیا جاتا رہا، ہائی لکس، سرف سے وی 8 لینڈ کروزر تک بات پہنچ گئی، لائف اسٹائل مزید بہتر ہوگئے، ان کی اولادیں بھی اسٹیٹس بڑھا کر اپنے اکابرین کی طرح پروٹوکول لینے لگیں.

حافظ سعید اینڈ کمپنی اپنے اس شرعی موقف سے یوٹرن مارگئی جو نوے کی دہائی میں ہوتا تھا کہ جہاد فرض ہے چاہے کچھ بھی ہو. کلمہ حق سب سے افضل جہاد ہے، کلمہ حق والے شرعی موقف سے پھر گئے. تصویرحلال ہوئی، ویڈیو مجبوری بنی، یہاں تک کہ جمہوریت بھی حلال ہوگئی، الیکشن لڑنے کا فیصلہ ہوگیا. جہاد کیلیے اکٹھا کیا گیا مال الیکشن پر لگنے لگا، اپنے چاہنے والوں سے جہاد اور جدوجہد کے فضائل بتا کر مزید پیسے اکٹھے کیے گئے کہ الیکشن میں لگائے جاسکیں.

ان کے ضلعی و تحصیلی عہدیداران جو کبھی موٹرسائیکل بھی جماعت کا لے کر پھرتے تھے. محنت کرنے سے دبلے پتلے ہوتے تھے، اب وہ کاروں میں ہیں، گھر بن چکے ہیں. مال جمع ہوچکا ہے، مسئولین ( عربی کی اصطلاح جو ایڈمنسٹریشن میں ذمہ داری ادا کرنے والے کیلئے استعمال ہوتی ہے) امیر صاحب کی طرف سے مقرر ہوتے تھے، انہی امیر صاحب نے اپنے بیٹے اور داماد کو سرگودھا اور لاہور کے اپنے حلقوں میں الیکشن کیلیے کھڑا کردیا.

الغرض یہ کہ کشمیر جہاد قصہ پارینہ ہوتاگیا، وہ ہزاروں نوجوان لاشے، اربوں روپے کے چندے، لوگوں کو جذباتی کرکے ان سے کروائی گئی خدمتیں سب رائیگاں گئیں، عرب سپرنگ اٹھی تو عام کشمیریوں نے جدید انداز سے مزاحمت مزید تیزکردی، برہان وانی و ذاکرموسی جیسے نوجوان نکلے ، اپنی جانیں دیں اور تحریک آزادی کو مزید جان بخشی، یہاں تک کہ بھارت نے کشمیر کی حیثیت تبدیل کردی، جس پر پاکستان کی حکومت نے عالمی و سفارتی سطح پر کشمیر ڈپلومیسی کو جاندار انداز سے شروع کیا، یہاں تک کہ دنیا بھر کا میڈیا اور عام شہری جو پاکستان کو بھارت کی مضبوط ترین اکانومی اور پروپیگنڈہ وار کی وجہ سے دہشت گرد اور گنوار ملک جانتے تھے، جنہوں نے سوائے افغان معاملے کے کبھی اہمیت دینا لازمی نہ خیال کیا، اب کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے موقف کی حمایت میں نظر آتے ہیں. بھارتی جارحیت و انتہاپسندی کو نازی ازم سے جوڑنے لگے ہیں،

لیکن پھر بھی کہا جاتا ہے کشمیر کا سودا عمران خان نے کردیا ہے. کشمیر میں پراکسی وار مزید جاری نہ رکھنے پر فوج بھی غلط ہے بلکہ کشمیر کاز سے غداری کرنے والی ہے لیکن حق پر ابھی بھی یہ جہادی مولوی ہیں کیونکہ ان کو اچھی نیت کا مارجن دیاجاسکتاہے، آخر مولوی نما جو ہیں!
جو چاہے تیرا حسن کرشمہ ساز کرے

اسٹبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کو کشمیر سے غداری کے طعنے دینا، ڈیل کا الزام بالکل درست ہوگا لیکن یہ تو بتا دیجیے کہ بوڑھے ماں باپ کے اکلوتے سہارے، پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائیوں، جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے نوعمروں، یونیورسٹیوں کالجوں کے ذہین ترین طلباء اور اپنے گھر کے ذمہ دار ہزاروں جوانوں کو کشمیر جہاد میں جھونکنے والے امراء المجاہدین بری الذمہ ہیں؟؟؟؟ قوم کے ان بچوں کا خون رائیگاں گیا یا مستقبل کی انویسٹمنٹ ہوئی؟؟؟

آخر ان ہزاروں لاشوں اوراپنی جوانیاں جہادی جماعتوں،امراء صاحبان کی خدمت گزاری میں ضائع ہونے کا حساب کس سے مانگاجائے. اس کا ذمہ دارکون ہے؟؟؟

کون اربوں روپے کے جہاد فنڈ اور سالانہ لاکھوں کھالیں جمع کرکے ملنے والے پیسوں کا جواب دے گا؟؟؟؟

وضاحت: تحریر کشمیر کے حوالے سے ہے اور مولوی لفظ سے اشارہ خاص لوگوں کی ط ف ہے، اس لیے براہ مہربانی اس لفظ سے مولوی دشمنی اخذ کرنے کی کوشش نہ کی جائے, شکریہ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے