8 بلین ڈالر کے ریلیف پیکیج کے اعلان کے بعد، وزیراعظم عمران خان نے غربت کی نچلی سطح پر زندگی گزارنے والے طبقے کو کم سے کم کچھ عرصے کے لیئے مطمئن کیا ہے۔لیکن کرونا وائرس کی وبا سے آنے والے وقت میں حالات کس حد تک پیچیدہ ہو سکتے ہیں اس حوالے سے وزیراعظم پہلے ہی لاعلمی کا اظہار کر چکے ۔
یوٹیلٹی اسٹورز کیلئے سبسڈی کو ڈیڑھ ارب سے بڑھا کر ڈھائی ارب کرنا ، ریلیف پیکیج کوعید الفطر تک لے جانے کا فیصلہ، کیش ایمرجنسی پروگرام کا باضابطہ آغاز ، احساس پروگرام کے ذریعے 12 ہزار روپے فی خاندانوں کی مدد ، 144 ارب روپ کی مستحقین میں تقسیم، کیش پروگرام سے1کروڑ 20لاکھ مستحقین کی مدد،ریلیف پیکج کے تحت 5 سے بڑھا کر19ضروری اشیا پر سبسڈی۔
یہ تمام اقدامات قابلِ ستائش ہیں۔ مگر کچھ ایسے عناصر ہیں جن کی وجہ سے معاشی مدد کی حکومتی کو شیش ناکام ہو سکتی ہیں۔ قرنطینہ سینٹرز میں بد نظمی، کرونا پازٹیو اور کرونا نیگیٹو افراد کا بوریت سے بچنے کے لیئے کھیل اور ناچ گانے میں مشغول رہنا، جس کی وجہ سے خاص طور پہ ملتان کے قرنطینہ میں تیزی سے کیسیز میں اضافہ ہوا۔
وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے خود ٹی وی انٹرویوز میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کے غیر سنجیدہ عوامی رویوں سے اور احتیاط نہ کرنے سے ایسا ہوا۔
بڑی بڑی معیشتیں کرونا سے ہار رہی ہیں، ٹرمپ جیسے ٹیڑھے شخص کا بھی لہجہ دھیما ہے اور ہماری عوام کرونا پہ جگتوں کے علاوہ کوئی بات کرتے نظر نہیں آتے۔اس وقت ذہنی اور سماجی بد نظمی سے بچنے کی ضرورت ہے۔
ایک اور خطرناک عنصر جو سازشی طور پہ کارفرما ہے۔ اس کا مقصد مذہبی معیشتوں کو زندہ رکھنے کے لئے حکومت کی احتیاطی تدابیر اور احکامات کی خلاف ورزی کرنا ہے۔ کراچی میں خاتون ایس ایچ او سے مسجد سے نکلنے والے ایمان کی طاقت سے سرشار بھائیو ں نے بدتمیزی کی، ایس ایچ او کے مطابق ان پہ حملہ ہوا۔ خیر حملہ تو نہیں تھا لیکن صورتِ حال تشویشناک ہےجس میں خاتون سے ہاتھا پائی ناقابل ِِقبول ہے۔
مولانا عبدلعزیز نے قانون شکنی کرتے ہوئے جمعہ کی نماز پڑھاتے ہوئے فرمایا کہ فاصلے سے کھڑے نہ ہوں بلکہ جڑ کے کھڑے ہوں ، اگر آ پ کو کچھ ہوا تو ذمے دار میں ہوں گا۔ اور سونے پے سوہاگہ یہ کہ نمازی بھائیو ں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت سے زیادہ ، برقا پہن کے بھاگنے والے اور انٹرویوز میں ذرا سے سخت سوال پہ معافی مانگنے والے ،مولانا عبدلعزیز کے دعوے پہ بھروسہ کر کے باقاِئدہ جڑ کےنماز ادا کی۔ حکومت اور علما کو مل کر درمیانی راستہ نکال کراس مسئلے کو حل کرناہوگا۔ مذہی دیوانگی اور مڈیکل سائنس کاٹکراو ہوا تو اتنے ہسپتال کہاں سے آِئیں گے۔
اس مشکل وقت میں قومی اتحاد اور ایثار کا سبق دیتے ہوئے حکومت کو پرائیوٹ اور سرکاری ہسپتالوں کی کو آرڈینیشن کےلیے عارضی اقدامات کرنے چاہیے ۔ ایسا کرنے سے وساِئل بڑھیں گے ورنہ سرکاری ہسپتال اس چلنج کا سامنا نہیں کر پائیں گے۔
ایک نجی چینل پہ پی ایم ریلیف فنڈ کے لئے چندہ جمع کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کے مجھے پیسے جمع کرنے کا سب سے زیادہ تجربہ ہے۔ اوپر جن عناصر کاذکر کیا ہے ان سےبھی زیادہ خطرناک عنصر ایک ایسا وزیراعظم ہے جس کا سب سے زیادہ تجربہ قائدانا صلاحیتیوں کے مظاہرے میں نہیں رہا، ایک ایسا وزیراعظم جس کا سب سے زیادہ تجربہ قومی اتحاد کو شکل دینے والی پالیسز میں نہیں رہا، ایک ایسا وزیراعظم جو معذرت کے ساتھ کان کا تھوڑا کچا بھی ہے ، ایک ایسا وزیراعظم ، جب ساری دنیا لاک ڈاون کی طرف جا رہی تھی ، اس کی مخالفت کر رہا تھا اور پھر جنہوں نے فیصلہ لینا تھا لے کر کہہ دیا کہ لاک ڈاون ناگزیر ہے۔ان انفرادی اور اجتعماعی عناصر کوسنجیدگی سے سمجھیں ورنہ دیر تو ہم نےپہلے ہی کر دی ہے۔
نوٹ۔۔۔
قاری اپنی تسکین کے لیے چیلنجنگ اور خطرناک عناصر کی ترتیب اپنی مرضی سے تبدیل کرسکتا ہے۔