آزادکشمیر ہائی کورٹ کے ججوں کی بر طرفی، خرابی کی جڑ کہاں ہے؟

عرف عام میں ہائی کورٹ کے جج کو بھی ہائی کورٹ ہی کہا جاتا ہے ، اس تناظر میں دیکھا جائے تو آزاد کشمیر کی سپریم کورٹ نے پانچ ہائی کورٹس کو بر طرف کردیا ہے – اس واقعے کا مجھے ذاتی طور سےمختلف وجوہات کی بنا پر افسوس ہوا- ایک تو یہ کہ اتنے بڑے منصب داروں کی تقرری کو خلاف آئین قرار دے کر ان کی برطرفی ، عوام الناس کا اعلیٰ عدلیہ پر اعتماد متزلزل ہونا، ججوں کی نوکری کا ساتھی ججوں کی خوشنودی پر منحصر رہ جانا، عوام الناس میں حکومت کے اختیارات کے غلط استمعال کا تاثر عام ہو جانا- سب سے بٹ کر یہ کہ میں ذاتی طور دو لوگوں کی اہلیت بہت اچھی طرح جانتا تھا جو میسر لوگوں میں سے اس اہلیت کے حامل ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ باقی نہیں، لیکن میں ذاتی طور ان کی اہلیت سے واقف نہیں-

سپریم کورٹ نے بڑا تفصیلی اور مدلل فیصلہ لکھا ہے جس کا مرکز و محور ان ججوں کی تقرری میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان سے مشاورت کا آئین کے مطابق نہ ہونا اور صدر آزاد کشمیر کا مسلمہ آئینی اصولوں اور عدالتی نظائر کے خلاف چئیر مین کشمیر کونسل سے ان کی تقرری کی بابت ایڈوائس لینا ہے –

تفصیلی فیصلہ میں لکھا ہے کہ جن واقعات کی بنیاد پر چئیر مین کشمیر کونسل نے صدر آزاد کشمیر کی تجویز ایک بار مسترد کر کے چیف جسٹس صاحبان کی مشاورت سے دوبارہ تجویز بھیجنے کی ہدایت کی تھی ، صدر نے ان ہی واقعات کی بنا پر چیف جسٹس صاحبان کی مشاورت کے بغیر دوبارہ وہی تجویز تین ایسے ناموں کو شامل کرتے ہوئے بھیجی جن کو چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کبھی تجویز ہی نہیں کیا تھا اور چئیرمین کشمیر کونسل نے اس تجویز سے اتفاق کر کے پانچ ججوں کی تقرری کی ایڈوائس جاری کردی – ایسے حالات میں ملک بھر کی مسلمہ آئینی روایات اور نظائر کی روشنی میں سپریم کورٹ اس کے مغائر کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں تھی-

ججوں کی بر طرفی پر افسوس سے قطع نظر ، مجھے یہ خوشگوار حیرت ہوئی کہ سپریم کورٹ نے سابقہ قانونی نظائر پر عمل کرکے نظائر کا تسلسل بحال رکھا جس کی اعلیٰ عدالتیں امین ہوتی ہیں – گذشتہ چند برسوں سے اعلیٰ عدالتوں نے اپنی ہی کئی مسلمہ نظائر ، جن میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف مقدمات بھی شامل ہیں، کو یکسر نظر انداز کر کے کیس ٹو کیس مقدمات کا فیصلہ کیا ، جس کی کلاسیکل مثال جسٹس علوی کا کیس ہے-

اعلیٰ عدلیہ کو کورٹ آف اوریجنل جورس ڈکشن ، کورٹ آف ریکارڈ اور کورٹ آف اپیل کی حیثیت حاصل ہوتی ہے – ان کے فیصلے ان کی حدود کے اندر تمام اداروں کے لئے قانونی حیثیت رکھتے ہیں اور رہنمائی فراہم کرتے ہیں – ان کو ان روایات اور نظائر کا امین سمجھا جاتا ہے – ان کے فیصلے ہمیشہ معروضی اصولوں (Objective principles )پر مبنی ہوتے ہیں، جو ہمہ گیر اہمیت اور اطلاق کے حامل ہوں ، غیر معروض ( Subjective) محدود نہیں ہوتے نہ ہونے چاہییں – اگر کسی سابقہ رائے کو بدلنا ہو تو معقول تحریری وجوہات کی بناء پر ہی بدلا جا سکتا ہے، اس زعم پر نہیں کہ یہ بڑی اور حتمی عدالت ہے لہٰذا جو چاہے کرتی رہے –

”مشاورت اور ایڈوائس ” کے حوالے سے یہ پہلا کیس نہیں ہے، نہ ہی اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی بر طرفی پہلی بار ہوئی ہے بلکہ 1994-95 سے آج تک اس آئینی اصول اور اس پر متعدد عدالتی نظائر کی خلاف ورزی کی بناء پر کئی تقرریاں کالعدم قرار دی جا چکی ہیں، لیکن انتظامیہ اس سے سبق نہیں سیکھتی نہ اپنی سمت درست کرتی ہے ، یہ حیرت کی بات ہے اور کم از کم الفاظ میں نالائقی یا بد دیانتی کی انتہا ہے –

1994-95 کے دوران ہائی کورٹ میں دو ایڈیشنل ججز کی تقرری کو ایڈوائس نہ ہونے کی بناء پر کالعدم قرار دیا گیا، 1997-98 میں شریعت کورٹ کے ججوں سمیت شریعت کورٹ کو ہی کالعدم قرار دیا گیا ، 2010 میں ہائی کورٹ کے دو ججز کی تقرری کو غیر آئینی مشاورت طریقہ کار کی بناء پر کالعدم قرار دیا گیا- اس کے بعد شریعت کورٹ میں دوبار تقرریوں کو کالعدم قرار دیا گیا-

اس بدعت کی ابتداء 1991 میں چیف جسٹسز کی مشاورت کے بغیر ایک وکیل کے ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جج کے طور تقرری سے ہوئی، بدقسمتی سے ہائی کورٹ کے ایک ڈویژن بنچ نے محض اس بناء پر اس کو درست قرار دیا کہ صدر وقت نے اس ایڈوائس کے پروانے پہ لکھا تھا ”میں نے چیف جسٹس سے مشورہ کر لیا تھا” حالانکہ یہ بالکل غلط تھا، اور ہائی کورٹ نے ریکارڈ طلب کرنا بھی گوارا نہیں کیا-

سپریم کورٹ کے فیصلے سے ایک اور بات مترشح ہوتی ہے کہ اس کیس میں خط و کتابت صرف چیف جسٹسز، صدر یا صدارتی سیکریٹریٹ اور کونسل سیکریٹریٹ کے درمیان ہی ہوتی رہی ، آزاد حکومت کے وزیر اعظم ، وزیر قانون ، چیف سیکریٹری اور سیکریٹری قانون کی سطح پر کسی بھی مرحلہ پر ساری خط و کتا بت کی کوئی جانچ پڑتال نہیں ہوئی ، حالانکہ ساری کارروائی کو مربوط کرنے کی ذمہ داری سیکریٹری قانون کی ہوتی ہے جو کونسل میں معاملہ ریفر کرنے سے پہلے اور ایڈوائس آنے کے بعد آئین اور رولز آف بزنس کی روشنی میں اس میں کمی کوتاہی کو اتھارٹی مجاز کی روشنی میں لاتے ہیں جس کے نہ ہونے کی وجہ سے تقریبآ پندرہ سال سے اداروں اور افراد کو خفت اٹھانی پڑ رہی ہے – سپریم کورٹ نے اس اہم نکتہ کا نوٹس نہیں لیا-

میرے پاس 1991 سے 2010 تک کا ایسا ریکاڈ موجود ہے جس میں سیکریٹریٹ قانوں نے کونسل میں ایڈوائس کے لیے معاملہ بھیجنے سے پہلے اور ایڈوائس آنے کے بعد آئین یا قواعد کار میں کوئی خامی پائی ہو تو اس کی نشاندہی کی ہے – دو بار تو کونسل سے جاری شدہ ایڈوائس بھی واپس ہوئی ہے-

ججوں کی تقرری کا آئین میں لفظ “ پریزیڈنٹ “ لکھا ہونے کی وجہ سے، اسٹیبلشمنٹ کے زور یا مرکز میں ہم جماعت حکومت ہونے کے باعث منتخب ہونے والے ہر صدر نے ، ججوں کی تقرری ہی نہیں ، جہاں جہاں تقرری کے لئے لفظ ” پریذیڈنٹ ” لکھا ہے وہاں حکومت کے سارے اداروں کو یرغمال بنا کر یہ حکومتی اختیار غصب کر لیے ہیں- اسی لیے میں اکثر یہی لکھتا رہا ہوں کہ آزاد کشمیر میں ایک “ معلوم الاسم اور معدوم الجسم “ بالاتر حکومت کے علاوہ، تین واضع متوازی حکومتیں کام کر رہی ہیں ، ایک آزاد کشمیر کی منتخب حکومت (جس کے 1/3 حصےکو بھی غیر رہائشی لوگوں نے یرغمال بنایا ہے) دوسری صدر ریاست کی حکومت، تیسری کونسل کی حکومت –

ایک المیہ یہ بھی ہے آزادکشمیر کے سیاست کار پہلے باہمی اتفاق سے کسی غیر عوامی و سیاسی اشارے یا مشورے پر اپنے اوپر صدر بنواتے ہیں . اکثر اس عہدے پر فائز ہونے والے فرد کا عوام کے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی عوام میں سیاسی جڑیں ہوتی ہیں. پھر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس عہدے کے لیے سہولت کار بننے والے(یعنی غیر سیاسی عناصر) آزادکشمیر کی حکومت کے نظام و نسق کو یرغمال بنا لیتے ہیں اور پھر یہی سیاست دان شکوے کرتے پھرتے ہیں. آزادکشمیر کے سیاست دانوں کو خود اپنی اداوں پر بھی غور کرنا چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ ایسی سیاسی و انتظامی بد عملی کے دور رس بین الاقوامی اثرات مرتب ہوتے ہیں.

حالانکہ یہ سارے براہ راست منتخب حکومتی اختیار ہیں ، جن سے مرتب ہونے والے ہر عمل کی جواب دہ حکومت ہے۔ ان اداروں کو حکومت ہی اسمبلی کے ذریعہ قائم کرتی ہے، ان کے لیے بجٹ فراہم کرتی ہے ، ان کے نظم ونسق کے لئے حکومت اسمبلی اور لوگوں کے پاس جواب دہ ہے، صدر اور کونسل کسی کے پاس کسی بھی جگہ جواب دہ نہیں ہیں، اسی لیے یہ ان کا اختیار بھی نہیں ، اس کا ازالہ منتخب حکومت اور اسمبلی ہی کر سکتی ہے اور کرنا چاہیے –

سچی بات یہ ہے اس بے ڈھنگے نظام اور بد عملی کے دور رس بین الاقوامی اثرات مرتب ہوئے ہیں جن کا کوئی ذی شعور انسان دفاع بھی نہیں کر سکتا- اس سسٹم کو دیکھنے کے بعد ، تحریک آزادی کے دوران پاکستان آئے ہوئے وادی کے پڑھے لکھے نوجوانوں کے خیالات نے تبدیلی، کشمیر میں خود مختار کشمیر کی تحریک نے زور پکڑا ہے –

سپریم کورٹ کے حتمی اپیلیٹ کورٹ ہونے کی حیثیت سے مجھے توقع ہے کہ یہ اپنے اور آزاد کشمیر کی حدود کے اندر کام کرنے والے اداروں کے حدود کا احترام کرنے اور کرانے کو یقینی بنائے گی، اداروں کو آئینی روح کے اندر رہتے ہوئے کام کرنے کی پابند بھی کرے گی اور اچھے دنوں میں معروف آئینی نظائر ، جو دنیا بھر میں رائج اور اسی عدالت نےماضی میں وضع کرنے کے علاوہ ان پر عمل کیا ہے، ( جس کا احیاء اس کیس میں کیا گیا ہے جبکہ جسٹس علوی کے کیس میں تمام روایات کی دھجیاں بکھیری گئی ہیں) ، کو یقینی جاری رکھنے اور حالات کے مطابق زیادہ بہتر اور منصفانہ بنائے گی ، جو نظر بھی آئیں اور محسوس بھی ہوں –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے