ریاست جموں وکشمیر کی وحدت ایک خوش کن اور رومان انگیز تصور سہی لیکن یہ تصور تاریخی حقائق سے ہم آہنگ نہیںہے۔1846 سے قبل ریاست جموں وکشمیر نام کا کوئی ملک اپنا وجود نہیں رکھتا تھا اگرچہ جموں ، کشمیر، پونچھ ، راجوری، لداخ، گلگت کے خطے اپنی اپنی جگہ الگ حیثیت سے موجود تھے۔لفظ کشمیر جس خطہ ارضی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے وہ ”وادی کشمیر“ ہے۔کشمیر سے جموں وکشمیر تک کا سفر اس خطہ کے باشندوں کے لیے غلامی و کسمپرسی کی المناک تاریخ کا حامل ہے۔
اس ریاست نے پنجاب کی سکھ حکومت کی کوکھ سے جنم لیا اور اسے عدم سے وجود میں لانے میں پنجاب کے سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کی جموں کے ڈوگرہ خاندان پر غیر معمولی نوازشات، گلاب سنگھ کی عیاری و موقع پرستی اور برطانوی استعمار کی جانب سے اس کی سرپرستی کا بنیادی کردار ہے۔منگلا کے قلعے میں معمولی اردلی کی ملازمت سے لے کر لاہور کے سکھ دربار میں وزارت عظمیٰ اور فوج کے سپہ سالار کے منصب تک کا سفر گلاب سنگھ کی ابن الوقتی ، اور مطلب براری کی نادر مثال ہے۔مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد اس کی بیوی رانی جنداں کو اکسا کر دریائے ستلج پار کرکے انگریز علاقے پر حملہ کروانا،درپردہ انگریزوں سے ساز باز کرکے اپنی سکھ فوج کی شکست کا راستہ ہموار کرنا اور پھر اس غداری کے عوض انگریزوں سے جموںوکشمیر کا علاقہ 75 لاکھ نانک شاہی میں ہتھیانا گلاب سنگھ کی کامیاب حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔9 مارچ 1846کے معاہدہ لاہور کے تحت جموں اور کشمیر کا علاقہ تاوان جنگ کے طور پر سکھوں سے انگریزوں کو منتقل ہوا اور 16 مارچ 1846 کو انگریزوں نے دریائے راوی اور دریائے سندھ کا علاقہ بشمول کشمیر، ہزارہ اور چنبہ 75لاکھ نانک شاہی کے عوض انسانوں اور ان کی املاک سمیت بھیڑبکریوں کی طرح گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کردیا۔علامہ اقبال نے بدنام زمانہ معاہدہ امرتسر کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
دہقان و کشت وجوئے و خیاباں فروختند
قومے فروختندوچہ ارزاں فروختند
اس طرح ریاست جموں و کشمیرکے نام سے انگریزوں کے زیرِ سایہ ایک دہری استعماریDouble Colonial ریاست کے طرز پر وجود میں آئی۔ یہ سارے مسلم اکثریتی علاقے تھے، جو انگریزوں نے مسلمان دشمنی کے بغض میں ہندو راجہ کی قلم رومیں دے دیے، اس طرح ہندوستان کے اس حصے میں مسلمانوں کو دبانے کی بنیاد پڑی ۔ان تمام علاقوں میں نمایاں اہمیت کا حامل علاقہ کشمیر تھا جوہر حکمران کی توجہ اور تمام سیاسی سر گرمیوں کا مرکز تھا ۔ دیگر جغرافیائی یونٹس کے ساتھ ڈوگروں کی غلامی میں جانےکے بعد سے اس وقت تک وادی کشمیر کا ہر قصبہ آزادی کی تحریک میں ریاست کے ہر یونٹ کی نمائندگی کرتا ہے۔
کشمیر کی کہانی
کشمیر صدیوں سے الگ طور ایک حسین ترین ملک کی صورت میں دنیا کے نقشے پر موجود تھا۔ بر صغیر کے ہر حکمران کی اس علاقے کواپنی قلم رو میں لانے کی کوشش رہی ہے اور اس کے بغیر اپنی سلطنت کو کبھی مکمل نہیں سمجھا ۔اسی طرح مقامی اور باہرسے آکرکشمیر میں آباد ہونے والوں نے بھی اس کو ہمیشہ بالجبر حکمرانی میں رکھنے کے لئے جنگ و جدل کی۔ اس وادی کے لوگوں کوتاریخ کے کسی دور میں میں سکھ، چین دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ وادی کے حسن کی سزا ہمیشہ اس کے باسی بھگتے رہے۔
وادی کشمیر کی لمبائی 135کلومیٹر جبکہ چوڑائی 32کلومیٹر ہے۔اس کی سرحدیں مختلف حملہ آور وں کے دور میں میں گھٹتی بڑھتی رہیں، لیکن جسے ریاست کشمیر، وادی کشمیر یا صوبہ کشمیر کہتے ہیں ،وہ ان ہی جغرافیائی حدود کے اندر واقع ہے جو ٹیٹوال(دریائے نیلم / کشن گنگا اور ویری ناگ کے درمیان واقع ہے) ضلع مظفر آباد، ہمیشہ سے صوبہ کشمیر کا حصہ رہا ہے البتہ وادی کشمیرسے باہر ہے۔
ا س وادی کے وجود میں آنے کے حوالے سے ہندو داستان گوؤں نے مختلف دیو مالائی قصے کہانیاں گھڑی ہیں ۔ ہندوبرہمنوں کی صدیوں پرانی کتھائوں” نیل مت پران اور راج تر نگنی“ میں اس وادی کو” ستّی سر“یعنی” بہت بڑی جھیل“ کہا گیاجس میں ” ناگ“ یعنی بہت بڑے سانپ / اژدھا کا بسیرا تھا جو آس پاس کے لوگوں کو کھا جاتا تھا، ان کو بچانے کے لئے ایک ہندوروحانی شخصیت“ کشپ رشی“ نے ہندو دیوتا’’ویشنو‘‘نے بارہ مولا کے مقام پر پہاڑوں کا سلسلہ کاٹ کر پانی نکالا جس سے یہ وادی وجود میں آگئی اور’’ دیوی پار وتی‘‘ نے اس کے اوپر ’’ ہری پر بت‘‘ کا پہاڑ پھینک کراس کو کچل ڈالا۔ اس حوالے سے ”کشپمیر“یعنی”کشپ کی جگہ“کا نام پڑ گیا۔ کسی یہودی فرقے کے یہاں سے گزر ہونے بھی بتایا جاتا ہے جنہوں نے صاف شفاف جگہ کو دیکھ کر” کا شیر“کہا جس کا ماخذ عبرانی زبان کا کاشرہے، حلال، پاک، صاف۔ اس کا نام کشمیرکی تاریخ میں“ کاس اور میرا”بھی لکھا جاتاہے یعنی پانی سے خالی کی ہوئی جھیل کا علاقہ۔اس کے قرب وجوار میں آباد”کھش“ نامی کسی قبیلے کے نام پر“ کھش مر”جو کھشمر“ مستعمل ہونے کے بعد کشمیر بن گیا۔
یہ سب نام ہندو مصنفین کی کتابوں سے ماخوذ ہیں ،جو تیس ہزار خداؤں کے ماننے والے داستان گوؤں کی طرف سےاپنے اپنے خدا کو بڑھاچڑھا کر پیش کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے ۔ جبکہ چند مسلمان مصنفین نے اس کےبرعکس لکھا ہے کہ پانی کی اس جھیل کو حضرت سلیمان نے بارہ مولہ کے مقام پر کاٹ کر وادی کو بر آمد کیا، جس میں حضرت موسیٰ مصر سے اپنے قافلے کولے کے آئے، حضرت عیسیٰ کی قبربھی سرینگر میں روزہ بل کے قریب ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔سلیمان (ع) کی بات مسلمانوں کے عقیدے مطابق مانی جا سکتی ہے کیونکہ جن اور ساری مخلوق ان کی دسترس میں تھی، ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا سلسلہ اگر باقی اہل کتاب عقیدے کے لوگ مانتے ہیں، یہ بھی ہو سکتا ہے ۔ ممکن ہے”ویشنو اور پاروتی“، حضرت سلیمان کے تابع مخلوق میں سے کوئی دیو ہوتے ۔ ویسے سلیمان (ع)کے قصے کے ساتھ منسوب ہے کہ ان کے دربار میں’’کاش‘‘نامی جنوں کا سردار اور” میر“نامی پریوں کی سردارنی تھی، جنہوں نے بارہ مولہ سے پہاڑکاٹ کر پانی نکالا، یہ دو نام جڑ کے”کا ش میر“اور پھر کشمیر بن گئے- بہ ایں ہمہ وادئ کشمیر کے ایک جھیل ہونے، بارہ مولہ کے مقام سے پہاڑ توڑنے اور وادی کشمیر کے بر آمد ہونے پر دونوں طرف کے مذہبی مصنفین کا اتفاق ہے، لیکن ان کو سائنسی اور ارضیاتی تحقیق اور علم کے پیمانوں پر حتمی ثبوت باور کرنا مشکل ہے-
ایک ارضیاتی تحقیق کے مطابق کروڑوں سال پہلے بر صغیر ہندوستان، انڈو نیشیا، ملائیشیا، بحرہند Tethis Ocean یا Tethis Sea کا حصہ تھے، جو بر اعظم GONDWANA اور LAURASIA کے درمیان تھا۔ بے شمار زلزلوں کی شکست و ریخت کی وجہ سے نئے بر اعظم اور اور ملک وجود میں آئے، جس وجہ سے پیر پنجال رینج کے نمودار ہونے سے ایک جھیل بھی وجود میں آئی اورTechtonic Activity کی وجہ سے بارہ مولہ کے مقام پر وہ بند ٹوٹا جس نےکشمیر کو جھیل بنایا تھا جہاں سے وہ پانی خارج ہوا، جس نے وادی سندھ کی تہذیب بھی غرق کی، پانی کی نکاسی کی وجہ سے وادی کشمیر وجود میں آئی، جس کے باقی ماندہ نشانات میں سے جھیل ڈل، جھیل ولر، جھیل مانسبل اب بھی موجود ہیں۔
میرے خیال میں باقی سیاسی عوامل کے، اسی قدرتی جغرافیائی عمل اور رد عمل کی وجہ سے کشمیری جائز طور اپنے آپ کومملکت پاکستان کا حصہ سمجھتے ہیں –
کشمیر کی وادی کی تاریخ پانچ ہزار قبل مسیح سے شروع ہوتی، جس کا ابتدائی تاریخی حوالہ ہندو مہنتوں کی تحریروں سے اخذ کیاجاتا ہےجن میں’’نیل مت پران“ اور اس کے تسلسل میں’’راج ترنگنی“ کشمیر کے سارے تاریخی لٹریچر کی ماخذ ہیں، گوکہ یہ خودتاریخ نہیںبلکہ اس زمانہ میں بیتے حالات اور کیفیت کے جذباتی قلم بندی ہے۔یہ وادی اسلام کے ظہوراور پھر اس کے بر صغیر میں آنےتک، ہندو مت اور بدھ مت کے اثر میں رہی ۔
اس کا پہلا حکمران سیلو ن سے آنے والا سری رام چندر تھا، جس کے بعد پہلا مقامی باشندہ گونندہ 3121 قبل مسیح میںکاحکمران بنا، گوکہ اس کے اجداد بھی باہر سے آکے یہاں آباد ہوئے تھے ۔ ان کے جور و جبر سے تنگ لوگوں نے بدھ مت اختیارکرناشروع کردیا جو ریاست کے شمال مشرق اور شمال مغرب میں آباد تھے اور ان کاکشمیر میں آنا جانا تھا۔ حالات کو ساز گار پاتے ہوےلگ بھگ 250 قبل مسیح میں ’’اشوکا‘‘نے کشمیر کو فتح کر لیا اور یہاں بدھوں کی حکومت قائم ہوئی۔
بدھوں کی حکومت کشمیر میں تقریباً 528 عیسوی تک قائم رہی، اس دوران پورے بر صغیر ہند پر بیرونی حملہ آوروں کی یلغار بھی ہوتی رہی جس سے کشمیر بھی متاثر ہوا اور جس سے بدھوں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور”ہن خاندان “نے کشمیر پرقبضہ کرلیاجنہوں نے بھی ظلم وستم کا بازار گرم کرکھا اور بالآخر ہندو مت نے 580 عیسوی میں دوبارہ غلبہ پایا جن میں سے مشہورترین فاتح للتادتیہ اور منصف مزاج، عوامی فلاح و بہبود کے داعی ”اونتی رومن“ قابل ذکر بادشاہ گزرے ہیں جن کے بعد ساڑھے چار سو سال تک کشمیر میں طوائف الملوکی رہی جس کی وجوہات میں بیرونی حملہ آوروں کے علاوہ برہمن ازم اور بدھ ازم کے درمیان فسادا ت بھی شامل ہیں ۔آخری لولا لنگڑاہندو حکمران” سہدیو“تاتاری حملہ آور “ زوالچو“ کے حملہ کی تاب نہ لاکر ریاست چھوڑ کر بھاگ گیا – اس طرح ہندوؤں کی دوسری بار حکومت 1328 تک قائم رہی ۔
اس دوران خلیج اور مشرق وسطی سے مسلمان مبلغین کا آنا جانا بھی شروع ہوگیا تھا۔ لوگوں نے ایک نئے دین، فکر اوران کے مبلغین کے کردار سے متاثر ہوکر دائرہ اسلام میں داخل ہونا شروع کر دیا ۔عام لوگوں کو پہلی بار قصے کہانیوں سے پاک،حجر، شجر، درندپرند سے بالا تر طاقت اور زندگی کے اصولوں سے شناسائی ہوئی – لوگ جوق در جوق ان صوفیا اور مبلغین کی طرف کھچے چلے آئے اور اسلام کے حلقہ بگوش ہوئے، حالانکہ ان کے پاس کوئی سیاسی یا اقتصادی طاقت نہیں تھی، نہ مسلمان ان کو نفع نقصان پہنچانے کی قدرت رکھتے تھے –
اس بلا تردید حقیقت سے آج کے ہندوستانی لیڈروں کے اس جھوٹے پروپیگنڈہ کی نفی ہوتی ہے کہ کشمیر میںمسلماںحکمرانوں نے بزور شمشیر ہندوؤں اور بدھوں کو مسلمان بنایا، جبکہ اس عرصہ کے دوران کوئی مسلمان حکمران نہیں تھا۔ لوگوںکوحق و انصاف کی تلاش میں اسلام میں عافیت نظر آئی اور وہ جوق در جوق دائرہ اسلام میں شامل ہوئے، جو ’’ ید خلون فی دین اللہ افواجا‘‘ کی تفسیر ہے –
اس زور پکڑتی ہوئی آگہی کے دوران جب کشمیر کے آخری ہندو حکمران ” سہدیو“تاتاری حملہ کے بعد فرار ہو گیا تو اس کے ایک لداخی شہزادہ” شہزادہ رنچن“ جو سہدیو کا وزیر تھا نے حکومت سنبھال لی – اس نے ، سہدیو کی فوج کے سپہ سالار” رامچندرہ“ کوقتل کرکے اس کی بیٹی’’کوٹہ رانی‘‘سے شادی کر کے اپنے آپ کو کشمیر کے بادشاہ ہونے کا اعلان کیا اور شاہ میر، ایکسواتی کواپنا وزیر’’رنچن شاہ‘‘ اسلام سے متاثر تھا جس نے ایک مسلمان صوفی ’’ شرف الدین بلبل شاہ‘‘ کے ہاتھ پر بیعت کرکےاسلام قبول کیا اور اپنے اسلامی نام ’’ سلطان صدر الدین ‘‘ سے حکومت کرنے لگا – 1323 میں اس کی وفات کے بعد سہدیو کے بھائی ’’اودیان دیو‘‘ حکومت پر قابض ہوگیا- اس کی 1338 ء میں وفات ہوئی ، جس کے بعد اس کے وزیر شاہ میرنے حکومت پر قبضہ کیا اورسلطان شمس الدین کا لقب اختیار کیا –
اس طرح کشمیر میں مسلمان سلاطین کے دور کا ، 1320 سےآغاز ہوا، جس کی ابتداءً سلطان شمس الدین نے ’’ شاہ میری خاندان “ کے طور کی اور اس خاندان کی حکومت کا سلسلہ 216 سال تک چلتا رہا-
ہندوستان میں عرب مسلمانوں کی آمد 711 ء محمد بن قاسم کے راجہ داہر پر حملہ سے پہلے ہی شروع ہوگئی تھی- سندھ سےوقتاًفوقتاً فقیر ، درویش پیروں کے روپ میں مسلمان کشمیر میں آتے رہے جس وجہ سے مذہب اسلام کی لو گوں کو آگہی ہوتی رہی- ’’ہرشہ‘‘ بادشاہ کے زمانے ( 1089 – 1101) میں سینکڑوں مسلمان اس کی فوج میں شامل تھے اور کئی کمان بھی کرتے تھے –
کشمیری قوم پرست مؤرخین کے مطابق رنچن شاہ کے زمانے سے کشمیر پر غیر ملکی لوگوں کے قبضہ کی ابتداءً ہوئی ، یہ بھی غلط نہیں ، لیکن کشمیر چونکہ کروڑ ہا سال زیر آب رہا، جب سے خالی ہوا قرب و جوار کی قو میتوں نے یہاں آکے آباد ہونا شروع کیا ، کچھ تو جز وقتی آباد کار تھے اور کچھ نے ہمہ وقتی بسیرا اختیار کیا- جب پورے یا جزوی بر صغیر پر مقامی یا غیر ملکیوں کی حکومت ہوا کر تی تھی وہ بھی کشمیر کے لوگوں کی مدد سے ہی اس کو زیر نگیں لیتے تھے ، ان میں سے جو یہاں مستقل آباد ہوگئے ان کو کشمیر کے اصلی باشندہ کا مقام حاصل ہے –
ان میں سے جس نے کشمیر میں حکومت قائم کی اپنا اثر و رسوخ دور دور تک بڑھایا – جو بادشاہ جہاں سے آکے یہاں آباد ہوا تھا یااس پر قبضہ کیا تھا ، اس نے اس ملک یا علاقے تک اپنی سلطنت کو پھیلایا ، چنانچہ ہندؤوں کے دور میں ہندوستان کے اکثر علاقےکشمیر کی قلمرو میں شامل ہوئے یا کشمیر کو اپنی قلمرو میں لیا – مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں کے دور میں کشمیر کی سلطنت وہان تک پھیلی ، افغانوں کے دور میں کابل اور اس کے ملحقہ علاقوں تک –
شاہ میر ی خاندان کے دور میں ہی ، سلطان شہاب الدین کے زمانے ( 1372ء) میں سید علی ہمدانیؒ کشمیر آئے – ان کےرفقاء اور دیگر جلیل القدر علماء اور صوفیاء کی کاوشوں سے کشمیر کے کونے کونے میں اسلام کی روشنی پھیلی – حضرت شاہ ہمدان تین بار کشمیر تشریف لائے – آخری بار ( 1383 ء) میں آئے تھے –
شاہ میر دور کے رحمدل ، منصف مزاج بادشاہ سلطان زین العابدین مشور ترین مشہور ترین گزرے ہیں ، جنہیں کشمیری زبان میں ’’بُڈ شاہ ‘‘ یعنی بڑا بادشاہ ، کے طور یاد کیا جاتا ہے –
شاہ میری خاندان کے زوال کے آخری ایام میں اسی دربار کے ایک وزیر ’’ غازی چک ‘‘ جو سہدیو کے زمانے میں دردستان سےآکر اس کا ملازم ہو کے شاہمیریوں کا وزیر بنا تھا، نے بھرے دربار میں آخری چک بادشاہ ، حبیب شاہ کے سر سے تاج اتار کر اپنےسر پر رکھ کر 1555ءمیں اپنی شہنشاہیت کا اعلان کیا –
چک شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے ،شیعہ نوازی کی وجہ سے دیگر عقیدے کے لوگوں سے سخت بیر رکھتے اور ظلم کرتے تھےجس وجہ سے ریاست میں طوائف الملوکی پھیل گئی – اس وقت ہندوستان میں مغل شہنشاہ اکبر اعظم حکومت کرتے تھے جن کےپاس جلیل القدر کشمیر ی علماء ، جن کی قیادت شیخ حمزہ مخدوم ؒ اور شیخ یعقوب صرفی ؒ کر رہے تھے نے کشمیر کو مغل سلطنت میں شامل کرنے کی درخواست کی- اکبر نے چک حکمرانوں کے نام کچھ ہدایات جاری کیں اور اس کے بعد کشمیر پر حملہ کیا –
جون 1586 میں راجہ بھگوان داس کی سربراہی میں مغل فو جیں کشمیر میں داخل ہوئیں ، کشمیر کو فتح کر کے اس کو صوبہ کابل میں شامل کردیا –
(جاری ہے . . . )
مضمون کا دوسرا اور آخری حصہ یہاں پڑھیں
ریاست کشمیر کا ہندو مت سے مودی مت تک سفر(آخری حصہ)