ریاست کشمیر کا ہندو مت سے مودی مت تک سفر(آخری حصہ)

مغلوں کے دور میں کشمیر کے قدرتی حسن کو محفوظ ، نکھار سنوار کے چار چاند لگا دیے گئے – کشمیر کو سیاحت کے لئے بیرونی دنیا کے لئے پرکشش بنایا گیا – بڑے بڑے باغ ، پارکیں، قلعے، دیدہ زیب محلات بنائے – علم ، ادب اور فنون لطیفہ کو عروج بخشااور کشمیر کو علم وادب کا گہوارہ بنایا – جب مغل انتشار کا شکار ہوئے تو احمد شاہ ابدالی کے سپہ سالار ، ایشک اقا صی نے 1752 میں کشمیر پر قبضہ کرکے اس کو کا بل کی سلطنت میں شامل کیا-
افغانستان کی کشمیر پر 1752 تک حکومت رہی اور اس سارے عرصے میں روئے زمین پر ظلم وستم کی جو بھی قسم تھی ،اس کوکشمیریوں پر بلا تخصیص مذہب و ملت آ ز مایا گیا – ایک فارسی شعر میں ان کے ظلم وستم کو یوں بیان کیا گیا ہے:
— سر بریدن برائے آں سنگ دلاں ، چوں گل چنیدن است
(ان سنگ دلوں (افغانوں ) کے لیے سر کاٹنا ، جیسے پھول چننا ہے)

سال 1947 میں جو قبائل ریاست کے مقامی لوگوں کو ’’ کفر‘‘ سے آزاد کرنے کے لیے کشمیر میں داخل ہوئے، انہوں نےسفاک افغان تاریخ کی ایک جھلک کشمیر کو دکھائی جس کو اس وقت تک اس زمانے کو دیکھنے والے زندہ لو گ خوف کی لوک کہانیوں ( Terror folk tails) کے طور سناتے ہیں-

ایک کشمیری پنڈت ’’بیر بل “ نے پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کو اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کے اس پر قبضہ کرنے کی تحریک کی ، دو حملوں میں تو سکھ ناکام رہے ، لیکن سپہ سالار ’’ دیوان چند ‘‘ کی سربراہی میں کشمیر پر 1819 میں تیسرے حملے پر قبضہ کر کے ، کشمیر کو لاہور کی سکھ سلطنت کا حصہ بنایا –

سال 1819 سے سال 1846 تک کشمیر پر 27 سال سکھوں کی حکومت رہی جنہوں نے افغانوں جیسا ظلم روا رکھنے کے علاوہ مذہبی آزادی بھی سلب کردی – کشمیر کی زمینوں کو جاگیرداروں میں بانٹ کر ان کے ذریعہ ایک اور ظالم طبقہ پیدا کیا جو ذیل دار، نمبر داراور چوکیدار کی صورت میں مسلط رہے-

سکھوں کے ستلج پار انگریزوں پر حملہ میں ناکامی کے بعد ، تاوان کی صورت میں راوی اور دریائے سندھ کے درمیان کا ساراپہاڑی علاقہ انگریزوں کو دینا پڑا جس میں کشمیر بھی شامل تھا – انگریزوں نے یہ علاقہ پچھتر لاکھ نانک شاہی کے عوض گلاب سنگھ کےنام 16 مارچ 1846 کو ایک معاہدہ کے ذریعہ منتقل کیا ، جو بیع نامہ امرتسر کے طور مشہور ہے – اس کے بعد کشمیر ، گلاب سنگھ کےذریعہ ڈوگروں کی عملداری میں آگیا، لیکن کشمیر وادی پر قبضہ ڈوگرہ اور انگریز فوج کو سخت مقابلے کے بعد 9 وسمبر 1846 کو ملا-

گلاب سنگھ ، بہت دانا اور دور رس نگاہوں کی حامل سیاسی بصیرت رکھتا تھا – اس نے سکھ دربار کی طرف سے والیٔ جموںکی حیثیت سے پونچھ اور لداخ و گلگت بلتستان تک کا علاقہ فوج کشی کے ذریعہ پہلے ہی اپنی دسترس میں لے لیا تھا اور وادئ کشمیر کواپنی قلمرو میں شامل کرنے کے لئے آخری حربہ انگریزوں کے ذریعہ عمل میں لایا

علامہ اقبال نے سانحہ کو یوں بیان کیا ہے :

دہقان و کشت و جوئے و خیابان فروختند !
قومے فروختند و چہ ارزان فروختند!

یہ کشمیر پر ایک اور طاقت کا بالواسطہ حملہ تھا، جس میں براہ راست فوج کشی کے بجائے دستاویزی ہتھیاروں کے ذریعہ کشمیر پر قبضہ کی جوازیت پیدا کر کے مزاحمت کو قانونی حق کے طور کچلا گیا – اس دور میں سوائے منضبط طریقے کے کشمیری لوگوں کو غلام بنانے کےکوئی تبدیلی نہیں آئی – کشمیری اپنی ہی زمیں میں اجنبی بنے رہے-

گلاب سنگھ نے دو اگست 1857 کو وفات پائی جس کے بعد اس کا بیٹا مہاراجہ رنبیر سنگھ تخت نشیں ہوا -وہ متشدد قسم کا ہندوتھا جس کے دور میں ہندو دھرم کو سرکاری حیثیت اور ہندؤوں کو ہر لحاظ سے تحفظ اور برتری حاصل تھی – دیگر مذاہب کے لوگ ملیچھ قرارپائے- کشمیری مسلمانوں کی حالت نا گفتہ بہ ہوگئی- بھاری اور بے ہنگم ٹیکس کا نظام رائج تھا جس کی وصولی کے لئے ہر قسم کاظلم روا تھا- مسلمان جان بچانے کے لئے پنجاب بھا گ گئے – امیر جو چاہے کر سکتے تھے جبکہ غریب سسک سسک کے زندگی گزارتےتھے – ایک انگریز نے اس کے دور پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ’’ غریب قانون کی چکی میں پستے رہے اور امیر قانون پر حکمران بنے رہے ۔‘‘ رنبیر سنگھ نے 12 ستمبر 1885 کوموت کے بعد اس کا بیٹا سر پر تاب سنگھ تخت نشین ہوا-

پر تاب سنگھ کی علمی تربیت گوکہ اچھے ماحول میں ہوئی تھی لیکن تعصب اس کے اندر بھی موجود تھا – مسلمانوں پر ظلم و ستم کی مسلسل شکایات پر انگریز حکمرانوں نے اس طرف توجہ دی اور مہاراجہ کی مخالفت کے باوجود کشمیر میں انگریزوں کا ریذیڈنٹ مقررہوا ، حتیٰ کہ پرتاب سنگھ کو مارچ 1889 میں معزول کر کے ریاست کا نظم ونسق چلانے کے لئے ایک ریجنسی کونسل مقرر کی گئی جس کا کنٹرول انگریزریذیڈنٹ کے پاس تھا- اس دوران بہت سی قانونی اصلاحات کی گئیں ،جن میں فوجی اصلاحات اور وادی کشمیر میں بندوبست اراضی اہم ترین ہیں – ہنزہ ، نگر اور چترال کی فتوحات بھی پرتاب سنگھ کے دور میں ہوئیں – 1891 میں پرتاب سنگھ کو ریجنسی کونسل کاصدر بنایا گیا ، جبکہ عوامی اہمیت کی بہت ساری اصلاحات اور منصوبے جاری کرنے کے بعد پرتاب سنگھ کو 1905 بطور مہاراجہ بحال کرکے سارے اختیارات بھی بحال کیے گئے اور ریجنسی کونسل ختم کی گئی – مہاراجہ پرتاب سنگھ نے 23 ستمبر1925 میںوفات پائی-

پرتاب سنگھ کی وفات کے بعد اس کا بھتیجا، امر سنگھ کا بیٹا ، میاں ہری سنگھ تخت نشین ہوا- ہری سنگھ اندرون اور بیرون ملک سے اعلی تعلیم یافتہ تھا، جس نے اعلیٰ فوجی کالج سے بھی تعلیم اور ٹریننگ حاصل کرکے ریاستی فوجوں کا سپہ سالار بھی رہا- اس کے دور میں انگریز ریاست کے معاملات میں مکمل طور داخل ہو چکے تھے- انگریزوں کی مکمل بالا دستی اور دباؤ کی وجہ سے ،اس کے زمانے دور رس اہمیت کی بہت سی اصلاحات ہوئیں جن میں نمایا ں ہائی کورٹ کا قیام ، بے گار کا خاتمہ ، میونسپل کمیٹیوں کا قیام اور ریاست کا ایک قومی تشخص قائم کرنے اور بحال رکھنے کا ’’باشندہ ریاست کا قانون‘‘ 1927” ہے-

ڈوگروں کے ہی دور میں مسجدوں کو اصطبل ، قرآن کی بے حرمتی ، اس کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو پابند سلاسل ،اذان دینے والےبائیس مسلمانوں کو یکے بعد دیگر گولیوں سے بھون دیا گیا –

اعلیٰ تعلیم یافتہ اور روشن خیال ہونے کے باوجود ، ہری سنگھ کے دور میں ہی ہندوستان کی دو قومی نظریے کی بنیاد پرسیماور اسی طرز پر آزادی ہند کا قانون بننے،اور پاکستان کے ساتھ ’’ سٹینڈ سٹل معاہدہ ‘‘ کے باوجود ، اس کے ذہن پرہندو ذہنیت غالب رہی، جس کااظہار مسلم اکثریتی ریاست جموں وکشمیر کا الحاق تقسم ہند کے اصولوں اور قانون کے تحت مسلم ریاست پاکستان سے کرنےکے بجائے ، غیر مسلم ریاست ہندوستان سے 26 اکتوب 1947 کو کر کے ، نہ صرف ریاست کے لوگوں ، بالخصوص مسلمانوں ،بلکہ بر صغیر ہی نہیں دنیا بھر کو جنگی کیفیت سے دوچار کردیا – اس میں اس وقت کے مسلمان لیڈروں کا تساہل بھی شامل تھا، لیکن قانون اور طے شدہ اصولوں پر عمل کرنے کی بنیادی ذمہ داری مہاراجہ ہی کی تھی-

کشمیر میں آبادی کے حوالے سے ایک حقیقت تو واضح ہے کہ قابلِ آباد ہونے کے بعد، یہ ہندؤں ، بدھوں اور پھر ہندو کامسکن رہا – جس قوم کا غلبہ اور حکومت رہی ، لوگوں نے اپنی عافیت کی خاطر اسی دین کو اپنا لیا، لیکن اسلام کسی حکومتی ، گروہی یا قبیلےسے نہیں ، بلکہ عافیت کی تلاش میں غیر مسلموں نے بے اختیار و اقتدار مسلمان ریشیوں، صوفیوں، اولیا کی تعلیمات اور ان کےطرز عمل سے انفرادی طور اختیار کیا اور بادشاہ وقت ( رینچن شاہ) نے خود قبول کر کے ’’نو مسلم‘‘ ہونے سے ا پنا رتبہ بڑھایا – محمددین فوق نے اس کو کیا خراج عقیدت پیش کیا-

جنت ارضی میں اوّل تو ہی نو مسلم ہوا
رفتہ رفتہ پھر ہوئی رعیت، یاد ہے ؟

اس نئے دین اور نظام کو رفتہ سب نے اپنا لیا- مسلم سلاطین کشمیر نے تو بنی بنائی اسلامی ریاست پر حکومت کی – سکھوں ،ڈوگروں اور اب ہندؤں کی مسلمانوں کے اوپر جبر وقہر کی مجموعی طور دو سو سالہ حکومت میں ایک مسلمان نے بھی دین نہیںچھوڑا بلکہ غیر مسلم اس دور میں بھی حلقہ بگوش اسلام ہوتے رہے- گلاب سنگھ اور رنجیت سنگھ نے پنجاب سے بھی ہندو لاکرکشمیر میں بسائے ، جو اب مودی کی حکومت کر رہی ہے ، لیکن مسلمان حوصلہ نہیں ہارے –

کشمیر کی تقسیم کا سانحہ

انگریزوں ، ڈوگروں اور پنڈت جواہر لعل نہرو کی قیادت میں کشمیری پنڈتوں کی ملی بھگت نے ، تقسم ہند کے اصولوں کو ناکام بناتے ہوئے، مسلمانان کشمیر کو ملت اسلامیہ میں شامل نہیں ہونے دیا اور یہ اس تاریخ کی کڑی تھی جو ڈوگروں سے حکومت چھن جانے سے ٹوٹی تھی ، اس کو ان کی سازش نے بالواسطہ جوڑ دیا –

قائد اعظم محمد علی جناح تین بار کشمیر گئے جو ان کے کشمیر کے ساتھ محبت اور لگاؤ کا اظہار ہے – 1925 اور 26’ کے دوران تومحض سیر کے لئے ، 1936 میں بھی نجی دورہ تھا لیکن اس دوران کشمیر ہائی کورٹ میں ایک کشمیر پولیس اہلکار کا مشہور زمانہ مقدمہ بھی ، بلا فیس لڑا اور کئی سماجی تقریبات میں حصہ بھی لیا- 1944 میں کافی طویل قیام کیا جس دوران سیاسی جماعتوں کی دعوت پران سے خطاب اور کئی نجی میٹنگز میں بھی حصہ لیا- کشمیریوں اور شیخ محمد عبداللہ کو سمجھایا کہ ہندوؤں کے جھانسے میں نہ آئے لیکن وہ یہ بات نہ سمجھ سکے، گوکہ مسلمانان کشمیر اس بات کو سمجھ گئے تھے – پنڈت جواہر لال نہرو جولائی 1945 میں جیل سے رہائی کے فوراً بعد نیشنل کانفرنس اور شیخ محمد عبد اللہ کی دعوت پر کشمیر کے دورے پر آئے جن کے ہمراہ خان عبد الغفار خان ، عبد الصمد اچکزئی، مولانا آزاداور دیگر کئی بڑے لیڈر بھی تھے، ان لیڈروں کے اعزاز میں نیشنل کانفرنس نے شیخ عبداللہ کی قیادت میں دریائے جہلم میں کشتیوںکے ذریعہ دریائی جلوس کا اہتمام – جہلم دریا کے دونوں کناروں پر کشمیریوں نے ان کے خلاف نعرہ بازی ، قائد اعظم کے حق میںنعرے ، ان پر پتھراؤ کیا جس میں متعدد کانگریسی اور نیشنل کانفرنس کے لیڈر زخمی ہوئے جو جان بچانے کے لئے کشتیاںچھوڑ کے بھا گ گئے- ، کانگریس اور ان کے ہمنواؤں کو اسے ابتدائی ریفرنڈم سمجھنا چاہیےتھا –

لیکن ، اس کے باوجود سازش کے دام میں کشمیر ی مسلمانوں کا لیڈر شیخ محمد عبد اللہ بھی آگیا ، جس کی سزا اب اس کی تیسری نسل اور پوری کشمیر ی قوم بھگت رہی ہے ، جس پر وہ افسوس کناں ہیں ، لیکن لمحوں کی خطا سے قوم برسوں سے سزا پارہی ہے – ہندوستان ، کشمیر میں تحریک آزادی کے ہر نشان کو مٹا رہا ہے – قومی دنوں کی چھٹیاں ، قومی مقامات کے نام بدل کے ہندوؤں کے طرز کے نام پر رکھے جارہے ہیں تاکہ مسلمانوں سے منسوب کوئی نام کوئی نشان باقی نہ رہے –

قائد اعظم کے دو قومی نظریہ کا اب کانگریس زدہ مسلمان لیڈر اعتراف کر رہے جب نریندر مودی کے تحت RSS کی حکومت نے لازم کیا ہے کہ ہندوستان میں آباد تمام مسلمانوں کواپنے ہندوستانی ہونے کا ثبوت پیش کرنا ہوگا ، جس میں کشمیری مسلماں بھی شامل ہیںکیونک اب ریاست کی حیثیت ختم کر کے اس کو ہندوستان میں ضم کردیا ہے جس سے ریاست کی شناخت ختم ہوکے اس کی حیثیت باقی ہندوستانی ریاستوں جیسی ہو گئی ہے ۔

آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کی 19 جولائی 1947 کی الحاق پاکستان کے حق میں قرار داد ، 15 اگست 1947 کے معاہدہ جو ں و توں کی منظوری ، کشمیریوں کی 5 اکتوبر 1947 کی ریاستی جلا وطن متوازی حکومت اور 24 اکتوبر کو ریاست کےڈوگرہ استعداد سے آزاد کراکے عملی حکومت سے ہندوستان اور کشمیر میں اس کے حامیوں کو نوشتہ دیوارپڑھ لینا چاہیےتھا ۔

ان حقائق کے برعکس مہاراجہ کشمیر کا ہندوستان سے 26 اکتوبر1947 کو جبری یا غیر جبری ، مکمل یا عارضی ، مشروط یا غیرمشروط الحاق لینے کی کون سی آئینی، سیاسی یا اخلاقی جوازیت بنتی تھی؟ رہی سہی کسر اقوام متحدہ کی سلامتی کو نسل نے اس الحا ق نامے کے برعکس ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ریاستی عوام کی رائے شماری سے کرانے کی قرار دادوں نے ہندوستان ، مہاراجہ اور شیخ محمد عبداللہ کی ساری قانونی، آئینی اور اخلاقی جوازیت ، اگر کوئی تھی ، وہ تو ختم ہوگئی ہے !!!
ریاست میں ہندوستان 1947 سے جو کھیل کھیلتا چلا آرہا تھا ، 1987 سے جس سطح کی ہندوستان مخالف تحریک نے ہندوستان کو بے بس کر کے رکھ دیا – نریندر مودی وزیر اعظم ہندوستان 5 اگست 2019 کو پوری ریاست کو انتہائ یڈھٹائی سے تحلیل کر کے دو لخت کرتے ہوئے ’’ہندو مت سے اسلام تک کے سفر‘‘ کی تاریخ کو مٹا کر ، مسلمان آبادی کے تناسب کو بدلنے ، غیر ریاستی ہندوؤں کو ریاست میں آباد کر کے ’’ستّی سر‘‘کے زمانے کے ’’ ہندو کشمیر‘‘ کی طرف سے اس وقت تک ہندوستان نواز لیڈروں کو پابند سلاسل اور سارے کشمیر کو کھلےآسماں تلے ایک جیل بنا کے جو انسانیت سوز، ملکی اور بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزیوں ، انسانی حقوق اور جنگی جرائم کا ارتکاب ، مسلمان آبادی کے تناسب کو بدلنے ، غیر ریاستی ہندوؤں کو ریاست میں آباد کر کے’’ستّی سر“کے زمانے کے ’’ ہندو کشمیر‘‘کی طرف سفر معکوس کی راہ پہ گامزن کرنے کے لئے جنونی اقدام کر رہا ہے ، اس کے بعد بھی وہ توقع رکھتا ہے کہ کشمیر اس کا ہے اور سارے کا سارا اس کا ہے ؟ اکیسویں صدی میں زمانہ جہالت کی باتیں۔۔۔ ؟
اسلام کی تاریخ ہے جو اس کے حلقہ بگوش ہوا وہ کشتیاں جلا کے ہوا، کسی اور عقیدے اور دین کی طرف نہیں گیا- یہ دنیا کا ترقی پسند دین ہے اور لوگ ترقی تلاش میں ہیں، اس لیے اس میں داخل ہونے والے ترقی معکوس نہیں کرتے –
حیرانگی کی بات ہے مہاتما گاندھی، پنڈت نہرو ، مولانا آزاد کا یہی ہندوستان ہے ، جو انسانوں اور بالخصوص مسلمانوں کے خون کاپیاسا ہے ؟

آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے ہندوستانی دعویدار وں کو اس حقیقت کا ادراک نہیں کہ یہ علاقے مہاراجہ کے فرضی اور کالعدم الحاق سے پہلے آزاد ہوکر پاکستان سے جڑ گئے ہیں، سلامتی کونسل کی قرار دادوں اور اس کے تحت 1949 کے سیزفائر معاہدہ او دو طرفہ معاہدوں نے اس زمینی اور آئنی حقیقت کو ہندوستان اور ساری دنیا نے تسلیم کیا ہے ؟ کیا یہ بین الاقوامی قانون کے تحت پاکستان کی سالمیت کو للکارنا نہیں ؟ ان علاقوں کے لوگ سکون اور اعتماد کے ساتھ پاکستان کےقومی دھارے کا حصہ ہیں، جبکہ ہندوستان نے مقبوضہ وادی کو جبر سے لاک ڈاؤن کرکے محصور کر رکھا ہے-

کشمیریوں کے اس واضح عملی موقف کے باوجود پاکستان نے اپنے اپنے آئین کی دفعہ 257 کے تحت گارنٹی ہوئی ہےکہ ( سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق) جب کشمیر کے لوگ پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں گے، الحاق کی شرائط طے کرنے کا حق کشمیریوں کو ہوگا – وہ مکمل ادغام ہو، چند امور تک ہو یا کنفیڈریشن ہو –

کشمیر نے تو ہندوستان سے آزاد ہونا ہی ہے ، اگر ہندوستان انگریزوں کی طرح خوش اسلوبی سے یہ معاملہ طے کردے تو یہ پورے بر صغیر اور دنیا کے امن کے لئے خوش آئند ہوگا- وگرنہ جس طرح مغل ، افغان ، سکھ اور ڈوگرہ کشمیر کو چھوڑ کربھاگے ، ہندوستان کو اس پس منظر میں کوئی استثنی حاصل نہیں ہوگا، یہ تاریخی عمل ہے اور تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے-
(ختم شد)

مضمون کا پہلا حصہ یہاں پڑھیں:
ریاست کشمیر کا ہندو مت سے مودی مت تک سفر(حصہ اول)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے