سیاسی مکالمہ

عین: (نون اور شین سے) لاہور میں آپ کا ڈرامہ فلاپ ہو گیا نہ آر ہوا نہ پار، میں گلابی دھوپ میں اپنے کتوں شیرو اور ٹائیگر سے کھیلتا رہا، مجھے تمہارے جلسوں کی کوئی فکر نہیں، کچھ بھی کر لو میں نے این آر او نہیں دینا۔

شین: (بات کاٹتے ہوئے) منتقم اور ظالم حکمران سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ لاہور کا جلسہ بہت کامیاب رہا، میں نے خواجہ عمران اور برکی کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ مجھے بالکل صحیح تعداد بتائیں، دونوں نے الگ الگ بتایا ہے کہ عین کے مینار پاکستان جلسے سے دوگنا لوگ تھے، باقی رہی این آر او کی بات تو آپ لوگوں سے این آر او مانگ کون رہا ہے؟

عین: (اونچی آواز میں) مجھے سب علم ہے، یہ جلسے، لانگ مارچ اور استعفے، سب غیرملکی سازش ہے۔ ایک دوست ملک کی پشت پناہی نہ ہو تو آپ کچھ نہ کر سکیں، مجھے علم ہے آپ کو پیسہ کون دے رہا ہے۔

نون: آپ سلیکٹڈ ہیں، سلیکٹرز کی پشت پناہی نہ ہو تو آپ ایک دن حکومت نہیں کر سکتے۔ میں تو آپ سے بات بھی نہیں کرنا چاہتا کیونکہ آپ بدتمیزی پر اُتر آتے ہیں۔

عین: تم کرپٹ ہو، منی لانڈرنگ کرکے محل بنائے، اب سازش کر رہے ہو کہ میری حکومت ختم ہو جائے اور تمہارا مال بچ جائے لیکن میں اپوزیشن میں بھی چلا گیا تو تمہیں لوٹا ہوا مال ہضم نہیں کرنے دوں گا۔

شین: اگر بھائی جلسے میں دو بڑوں کے نام سرعام نہ لیتے تو جنوری میں آپ کی حکومت کا بوریا بستر لپیٹا جانا تھا، معاملات ٹھیک جا رہے تھے، نام لینے سے تھوڑا مسئلہ ہو گیا ہے۔

نون: سچ کو سچ نہ کہوں، کب تک خاموش رہوں؟ نام لینے سے یہ ایکسپوز ہوئے ہیں وگرنہ یہ تو ٹس سے مس نہیں ہو رہے تھے، سب مل کر حکومت کر رہے تھے اور ہمیں مار رہے تھے، سب کو پتا تو چلے کہ اصل کون ہے اور نقل کون؟

عین: (دونوں کو مخاطب کرکے) تم بھی عجیب لوگ ہو، ایک جلسے میں کھڑے ہو کر نام لیتا ہے اور دوسرا کہہ رہا ہے نام نہیں لینا چاہئے، تم پہلے ایک بات پر متفق تو ہو جائو۔ ہر کسی کو چکر دینے سے باز آجائو، اب لوگ تمہارے چکروں کو سمجھ گئے ہیں، تم اندر سے ملے ہوئے ہو۔

شین: میں نے بھائی صاحب کو اپنی رائے دیدی تھی، نام نہ لیتے تو ہمیں سیاسی فائدہ تھا، اب تک حکومت کا دھڑن تختہ ہو جاتا، مجھے گرفتار ہی اس لئے کیا گیا تھا کہ آپ کو ڈر تھا میں آپ کی حکومت کا تیا پانچہ کرنے والا ہوں۔

نون: مصالحانہ سیاست بہت کرکے دیکھ لی، ہر دفعہ ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا، اب سچ کی سیاست ہوگی، جارحانہ بات ہوگی، مریم بڑی سمجھ داری سے سیاسی بیانیے کو چلا رہی ہے۔

شین: واقعی مریم بیٹی بیانیے کو بڑی اچھی طرح لے کر چل رہی ہے، وہ اداروں کے خلاف نعرے نہیں لگنے دیتی، وہ شخصیات کے خلاف بھی نعرے نہیں لگنے دیتی۔ وہ بہت سمجھ داری سے چل رہی ہے۔

عین: تم سب سازشی ہو۔ سازش کے علاوہ تمہیں کچھ نہیں آتا۔ کبھی غیرملکی سازش، کبھی ملکی سازش، ملک معاشی طور پر چلنے لگا ہے تو آپ نے سازشیں شروع کردی ہیں، ٹیکسٹائل اور کاٹن انڈسٹری عروج پر ہے، کنسٹرکشن کا شعبہ شاندار جارہا ہے، ایسے میں تحریک، جلسہ اور جلوس سازش نہیں تو اور کیا ہے؟

شین: آپ انتقام پر اترے ہوئے ہیں، میرے خلاف دھیلے کی کرپشن ثابت نہ ہوئی، کسی حکومتی ادارے سے کک بیک یا گڑ بڑ کا اشارہ بھی نہیں ملا۔ میں افہام و تفہیم کی بات کررہا تھا لیکن آپ سے یہ بھی ہضم نہیں ہوا۔ (ہاتھ کی انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے) نیازی صاحب! یاد رکھو تمہاری حکومت اب بھی جانی ہے، ہم نام نہ لیتے تو ہماری باری آنی تھی، ہم نے نام لیا ہے تب بھی تم جائو گے لیکن اب کی بار فائدہ ہمیں نہیں، تیسرے فریق کو ہوگا۔

عین: یہ جو آپ کے بچے کروڑوں کی منی لانڈرنگ کرتے رہے ہیں، یہ کرپشن نہیں تو اور کیا ہے؟ آپ سر عام چوراہے میں چوری کرتے پکڑے گئے ہیں۔

شین: کسی سرکاری محکمے سے ایک دھیلے کی چوری ثابت نہیں ہو سکی تو میرے بچوں کے ذاتی بزنس میں مداخلت کردی۔ ہمارے بزنس کا ہماری حکومت سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ میرے بیٹوں کے خلاف سب مقدمے جھوٹے ہیں، وقت یہ ثابت کردے گا۔

نون: شہباز چھوڑو۔ کیوں اِس کو وضاحتیں دے رہے ہو، میری کونسی کرپشن پکڑی گئی؟ بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر مجھے نااہل قرار دے دیا گیا ہے، یہ کونسا انصاف ہے؟

عین: آپ کے خلاف عدالتوں نے فیصلے دیے ہیں، آپ کے خلاف مقدمات پچھلی حکومتوں نے بنائے، ہمارا تو اِس معاملہ میں کوئی قصور ہی نہیں۔

نون: ہمیں علم ہے کہ کون کس تھالی کا چٹا بٹا ہے، ہمیں یہ بھی پتا ہے کہ ہمارے خلاف کون کام کررہا تھا؟ آپ کو تو لا کر بٹھا دیا گیا ہے، آپ کو تو اقتدار دیا ہی نہیں گیا، آپ تو ڈمی وزیراعظم ہیں، آپ کو عوامی قوت کا کیا علم؟

عین: آپ پتا نہیں کس دنیا میں رہتے ہیں، پاکستان بدل چکا ہے، تمہاری چہیتی مریم نے لاہور میں کئی دن لگائے مگر مینار پاکستان پر اچھا شو نہیں کر سکی، اتنا کم کرائوڈ تھا کہ ہمیں رحم آ رہا تھا، اب احتجاجی مہم میں دم باقی نہیں رہا۔

شین: اگر آپ میں جرأت ہے تو ہمیں فری ہینڈ دو، ہم بھی لوگوں سے رابطے کریں، اگر ہمیں کھلا میدان مل جائے تو ہم مارچ سے پہلے آپ کی حکومت ختم کر کے دکھا دیں گے۔

نون: حالات جو بھی ہوں، جیسے بھی ہوں، آپ کے دن گنے جا چکے ہیں۔ آپ اب جو بھی کر لیں آپ کو جانا ہی پڑے گا۔ آپ جس گٹھ جوڑ کے ذریعے حکومت میں آئے تھے وہ سارا کچھ لوگوں کے سامنے آ چکا ہے۔ اب نہ سلیکٹرز کو چھوڑیں گے اور نہ سلیکٹڈ کو، سب ہی کو جانا پڑے گا۔

عین: آپ کہیں خوابوں میں رہتے ہیں، میں تو اِس تیاری میں ہوں کہ آپ کو گرفتار کر کے لندن سے واپس لایا جائے، آپ کو جیل میں رکھ کر سزائیں پوری کی جائیں، آپ اپنی خیر منائیں۔ کبھی آپ اپنی بیماری کے پیچھے چھپتے ہیں اور کبھی کسی اور بہانے کے پیچھے لیکن بالآخر تم لوگ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوگے۔ یہی تم لوگوں کا مستقبل ہے۔

شین: نیازی صاحب! وقت بدل چکا ہے۔ اب آپ کی باری آنے والی ہے، ہم انتقام تو نہیں لیں گے مگر جس طرح احد چیمہ، فواد حسن فواد، حمزہ شہباز شریف اور مجھے انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے اُس کا حساب تو ہو گا۔ نیازی صاحب! آپ تو ایک دن جیل نہیں کاٹ سکیں گے۔

عین: میرا ریکارڈ صاف ہے۔ ایجنسیاں میرے فون سنتی ہیں، انہیں پتا ہے کہ میں ایماندار ہوں اور میرے دفتر میں کوئی گڑبڑ نہیں ہوتی، نہ تم لوگوں کی طرح خفیہ ایس آر او نکلتے ہیں، نہ مالیاتی اور صنعتی پالیسی میں اونچ نیچ ہوتی ہے۔

نون: نیازی صاحب! وقت آ لینے دو، سب ایجنسیاں تمہارے خلاف گواہی دیں گی۔ آٹا چینی اور مہنگائی کا حساب کون دے گا؟ آپ نے کچھ ٹھیک نہیں کیا، ہر ایک چیز کو خراب ہی کیا ہے۔

عین: آپ کا اور ہمارا مکالمہ نہیں ہو سکتا۔ میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا، نہ این آر او دونگا اور نہ کوئی اور چھوٹ۔

شین: آپ سے این آراو مانگ کون رہا ہے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے