پر امن معاشرے کی تشکیل میں نوجوانوں کا کردار

چند عرصہ قبل گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں ایک دلخراش واقعہ پیش آیا۔ ضلع دیامر کے ہیڈکوارٹر چلاس سمیت وادی داریل میں گیارہ سکولوں کو نذر آتش کردیا گیا تھا۔ یہ واقعہ گلگت بلتستان بھر کے لئے باعث تشویش تھا کہ ضلع دیامر جی بی کا گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ضلع دیامر کے نوجوانوں نے بڑی تعداد میں علامتی ریلی نکال کر اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے شریک جرم افراد کے خلاف قرار واقعی سزا کا مطالبہ کر دیا۔ ضلع دیامر کے نوجوانوں کے اس عمل سے گلگت بلتستان اور اداروں کے حوصلے بھی بلند ہوئے اور نہ صرف سکولوں کی رونق ایک بار پھر بحال ہوگئی بلکہ دیامر فوری طور پر اپنے معمولات زندگی بھی بحال کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

ماہرین عمرانیات و سماجی علوم اس بات پر متفق ہیں کہ کسی بھی سماج میں تبدیلی کا بہترین زریعہ وہاں کی نوجوان نسل ہے۔ نواجوان کسی بھی معاشرے میں سب سے زیادہ متحرک اور سب سے زیادہ اثرات باقی رکھنے والا گروہ کہلاتا ہے۔ اقوام عالم کی تاریخ میں اگر کہیں پہ بھی کوئی بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے تو نوجوان اس تبدیلی کے صف اول میں شامل تھے۔

ماہرین اس بات پر بھی متفق ہیں کہ ہر وہ شخص نوجوان ہے جو بچپن کے دور سے نکل چکا ہے لیکن ابھی پختہ عمر اور شعور کی عمر میں داخل نہیں ہوا ہے۔ ایسی عمر جہاں بندہ صحیح غلط، نقصان فائدہ کے درمیان فرق محسوس نہیں کرسکے۔ شعور کا تصور اکثر عقل کے ساتھ ملایا جاتا ہے مگر شعور درحقیقت وہ علم ہے جسے تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں حاصل کیا گیا ہے۔ عمر کے اس حصے میں انسان کا جذبہ، ارادہ اور توانائی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ اگر ان جذبات، ارادوں اور توانائی کو بہتر سمت میسر نہیں ہوجائے تو واضح ہے کہ غلط سمت کی طرف نکل جائیں گے اور اپنا مستقبل بھی تباہ کریں گے، وہ کردار ادا نہیں کرسکیں گے جو بطور اس معاشرے کا حصہ انہیں ادا کرنا ہے۔

عالمی دنیا نے 2015میں پہلی مرتبہ اس بات کو تسلیم کرلیا کہ معاشرے میں قیام امن اور تنازعات کے حل سمیت بچاؤمیں نوجوانوں کا اہم کردار ہے۔ اس سے قبل 1999 میں پہلی مرتبہ نوجوانوں کا عالمی دن مناکر یہ پیغام دیدیا گیا کہ بہتر مستقبل کے لئے نوجوانوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔اس نتیجہ پر پہنچنے کے لئے دنیا کو مسائل کے سدباب اور مسائل کے اسباب پر غور و خوض کرنا پڑا۔

پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جن کی آبادی زیادہ تر نوجوانوں پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے اس ملک کے مستقبل کو روشن دیکھا جارہا ہے۔ نوجوانوں کے لئے ان کے جدید ضروریات اور تقاضوں کے مطابق اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جس کے زریعے وہ معاشرے سے باخبر رہ سکے۔ نوجوانوں کو ایسے مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے جن کے زریعے وہ وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کرسکیں۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ موجودہ وقت بڑی تیزی سے بدل رہا ہے۔ ٹیکنالوجی کی دنیا نے ہر آنے والے دن کو گزشتہ دن سے بالکل تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرے کے لئے افکار تازہ اسی طرح ضرورت بن کررہ گئے ہیں جس طرح جسم کے لئے خوراک ہیں۔

علامہ اقبال مرحوم نے اسی تناظر میں اپنے اکثر شعرا ء نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہیں ہیں۔جس کی جھلکیاں جا بجا ملتی ہیں۔انہوں نے اپنے قلم کے زریعے نوجوانوں کو اس بات کا احساس دلایا کہ وقت کی نزاکت کو محسوس کی جائے اور اس تقاضے کے مطابق اپنا کردار اادا کیا جائے۔ انہوں نے بدلتے وقت اور مشکلات کا حل اس شعر میں نکالا کہ نوجوانوں کو مستحکم کیا جائے۔
خرد غلام سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر

پاکستان اور گلگت بلتستان کا شمار ایسے علاقوں میں ہوتا ہے جہاں وسیع خیالات رکھنے والے لوگ موجود ہیں جس کی وجہ سے معاشرہ تکثیریت کی جانب جاتا ہے۔ ایسے معاشرے میں اگر عدم برداشت کا تصور جاگ جائے تو امن و امان کی صورتحال بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ معمولی سے معمولی باتوں کو لیکر طوفان کھڑا کردیا جاتا ہے۔ بالخصوص سوشل میڈیا کی آمد کے بعد جہاں ایک طرف معلومات کا بہاؤ تیز ہوا ہے وہی پر اس قسم کی سرگرمیاں بھی دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں جن کا مقصد علاقے کے امن کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر منبر و محراب کے بعد اگر کسی جانب نظریں اٹھتی ہیں تو وہ یہی نوجوان طبقہ ہے جو ہم آہنگی کی فضا قائم کرنے اور تکثیری معاشرے کے قیام کے لئے اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ ماضی کے معاملات اور معمولات کے برعکس موجوددہ دور میں نوجوانوں کی اکثریتی تعداد اس بات کا ادراک رکھتی ہے کہ علاقے کا امن کس قدر عزیز ہے۔ بدامنی اور پر امن معاشرے میں کیا تمیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان جیسا علاقہ، جس کا ماضی فرقہ وارانہ تناظر میں خوش کن نہیں، عرصہ دراز سے سکھ کا سانس لئے بیٹھا ہے اور کسی غریب کا بے گناہ بیٹا کسی ’ناکردہ گناہ کے جرم میں گرفتار‘نہیں ہے۔ وقت کی ضرورت ہی یہی ہے کہ گلگت بلتستان کے نوجوان بدلتے سیاسی معاملات سے باخبر رہے اور آنے والے مستقبل پر نظر رکھیں۔ جس طریقے سے دیامر کے نوجوانوں نے اپنے علاقے کے لئے ایک مثال قائم کردی ہے اسی طرح ہی اپنے علاقوں میں بھی چوکس رہتے ہوئے ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کریں جن کا مقصد افراتفری پھیلانا ہے۔

نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں میں شریک اور شامل کرکے ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ مذہبی معاشی مثبت طرز عمل کے فروغ سمیت قیام امن اور استحکام امن میں نوجوانوں کا کردار ناقابل تردید ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان اپنی اس اہمیت کو پہچانتے ہوئے اس کے مطابق کردار ادا کریں اور حکومتی سطح پر نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں میں مشغول کرنے اور روشن مستقبل کی نوید بنانے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ نوجوانوں کو سماجی محرومیوں سے باہر نکال کر یکساں مواقع فراہم کریں۔حکومتی سطح پر بھی نوجوانوں کے لئے کرنے کے امور باقی ہیں جن پر توجہ دیکر نوجوانوں کو حقیقی معنوں میں قوم کا سرمایہ بنایا جاسکتا ہے۔ آج کے دور میں آئے روز نت نئے ایجادات کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہے کہ نوجوانوں کو کسی زنجیر سے باندھ کر رکھا جائے۔
..

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے