کس نوعیت کے چین امریکہ تعلقات دنیا کے مفاد میں ہیں

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت امریکہ اور چین دنیا کی دو بڑی طاقتیں ہیں۔ دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان تعلقات دنیا کے د یگر ممالک کے لیے بھی اہم ہوتے ہیں ۔ اس کی مثال ہم یوں لے سکتے ہیں کہ ایک زمانے میں جرمنی ، روس اور جاپان دنیا کی بڑی طاقیتیں تھیں جب ان ممالک کے درمیان تعلقات خراب ہوگئے تو پہلی عالمی جنگ برپا ہوئی اسی طرح کی صورتحا ل دوسری عالمی جنگ کے وقت بھی رونما ہوئی اور تیسری مثال روس اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ کی ہے ۔

ان تین بڑی مثالوں سے پتہ چلتاہے کہ ان بڑی طاقتوں کے درمیان چپقلش اور تصادم اور خراب تعلقات سے دنیا کو نقصان ہوا ہے جس کا خمیازہ ان ممالک سے زیادہ دوسرے ممالک نے بھگتاہے ۔ان تینوں جنگوں کے نتیجے میں د دنیا کی معیشت پیچھے چلی گئی۔ کئی ممالک کے اندر انفراسٹرکچر تباہ ہوگیا اور لاکھوں قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔ یہ تو صرف ظاہری اثرات ہیں ان تضادات اور جھگڑوں کی وجہ سے بہت سے ممالک پیچھے چلے گئے ہیں اور ایسے نقصانات ہوئے ہیں جن کا ازالہ ممکن نہیں۔ آج افغانستان، عراق اور شام کی صورتحال ہمارے سامنے ہے۔ سوال یہ ہے کیا ان جنگوں اور تنازعات سے بچاو ممکن نہیں تھا۔ اس بات سے تمام ذی شعور اتفاق کریں گے کہ جنگوں اور تنازعات کے ہمیشہ نقصانات ہوتے ہیں اور امن کا ہمیشہ فائدہ ہوتاہے ۔

اس وقت دنیا ایک مرتبہ پھر اہم موڑ پر کھڑی ہے ۔ دنیا کے ایک بڑے طاقتور ملک امریکہ میں حکومت کی تبدیلی ہوئی ہے۔ امریکہ کے پچھلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت کے دوران امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات کشیدہ رہے ۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی کشیدگی جاری رہی ۔اب امریکہ میں نئی انتظامیہ برسر اقتدار آئی ہے ۔ مستقبل میں دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات پوری دنیا کے مفاد میں ہیں۔ اسلئے ان دونوں ممالک کے تعلقات پر دنیا کی نظر ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ چین اس حوالے سے کیا سوچ رہا ہے۔

چین کی خارجہ پالیسی میں دنیا کے ساتھ تعلقات کے لئے واضح روڈ میپ موجود ہے۔چین کی خارجہ پالیسی پانچ دیرینہ اصولوں پر قائم ہے: ایک دوسرے کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا ا احترام ، عدم جارحیت ، ایک دوسرے کے داخلی امور میں عدم مداخلت ، مساوات اور باہمی مفاد کی بنیاد پر پرامن بقائے باہمی۔عہد حاضر کا چین کثیرالجہتی اور نئی طرز کی عالمی حکمرانی کے لئے آواز اٹھا رہا ہے جس کی بنیاد باہمی تعاون ، ہم آہنگی ، مساوات کو فروغ دینے اور محاذ آرائی سے گریز کر نے میں ہے اور کسی کے سیاسی اور معاشرتی نظام کو دوسرے ممالک پر مسلط کرنے سے پرہیز کرنا ہے۔ اس پالیسی کے پیچھے چین کی مضبوط قیادت اور مستحکم نظام ہے۔

ٹرمپ کی چار سال کی یکطرفہ پسندی اور متنازعہ پالیسیوں نے دنیا میں اشتعال انتشار اور بے چینی پیدا کی اور عالمی سطح کے اہم ملک کے طور پر امریکہ کی ساکھ کو کافی نقصان پہنچایا اب بائیڈن کو ایک بدلی ہوئی دنیا مل رہی ہے۔ چین امریکہ تعلقات کے تناظر سے دیکھیں تو اگر چہ یورپی یونین ، ابھی تک تکنیکی طور پر امریکہ کے ساتھ جڑا ہوا ہے تاہم اس نے چین کے ساتھ گزشتہ سال کے آخر میں سرمایہ کاری کے معاہدے کے ذریعے اپنی خودمختاری کو واضح کیا ہے۔اسی طرح دوسرا اہم علاقہ ایشیا پیسیفک کا علاقہ ہے۔ جس میں آسیان کے علاہ اب علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری معاہدہ موجود ہے جس میں چین ، آسٹریلیا ، انڈونیشیا ، جاپان اور جنوبی کوریا کے ساتھ آسیان کے 10 ممبر ممالک شامل ہیں۔ ان ممالک میں سے زیادہ تر امن اور ترقی ، کثیرالجہتی ، تعاون اور مستقبل کو جغرافیائی سیاسی تناؤ میں داؤ پر لگانے سے انکار ی ہیں ۔

اس وقت دنیا کی ہیت تبدیل ہوچکی ہے عالمی صورتحا ل میں کئی تبدیلیاں آچکی ہیں امریکہ کو نئی بین الاقوامی پالیسی ترتیب دیتے وقت ان حقائق کا ادراک کرنا ہوگا اسلئے یہ بہتر ہوگا کہ امریکہ نئے حقائق کا احترام کرے اس طرح کی ایپروچ ممکنہ طور پر چین امریکہ تعلقات کی بحالی کی طرف پہلا قدم ہوسکتا ہے۔ چین پر امن بقائے باہمی ، باہمی احترام اور برابری کی بنیاد پر جیت جیت کے تعلقات چاہتاہے ۔ اگر نئی امریکی انتظامیہ چین کے ساتھ مخالفانہ رویے کے بجائے دوستانہ اور خوشگورار تعلقات استوار کرتاہے تو یہ نہ صرف دونوں ممالک کے عوام بلکہ پوری دنیا کے مفاد میں ہوگا ۔ چین امریکہ تعلقات ایک وسیع موضوع ہے ۔اس حوالے سے انشااللہ مزید لکھوں گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے