وزیراعظم عمران خان نے توہینِ عدالت اور کرپٹ پریکٹس کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد میں سرکاری مُلازمین کے تنخواہوں میں اضافہ کے لیے ہونے والے احتجاج کی وجہ سے پارلیمنٹ ہاوس کی بجائے نادرا اور ریڈیو پاکستان کا روٹ لیتا ہوا ساتھی صحافی عادل علی کے ساتھ سُپریم کورٹ پہنچا تو بارہ بجکر پچپن منٹ ہو چُکے تھے۔ آج صدارتی ریفرنس کے علاوہ وزیراعظم کے سینیٹ انتخابات سے قبل دیے گیے ترقیاتی فنڈز پر لیے جانے والے نوٹس کی بھی سماعت تھی۔ پچھلے ہفتے بلدیاتی نظام پر جاری کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مقبول باقر نے اِس معاملے کا نوٹس لے کر سماعت کے لیے مُقرر کرنے کے لیے فائل چیف جسٹس آف پاکستان کو بھجوا دی تھی۔ چیف جسٹس گُلزار احمد نے کیس سماعت کے لیے اپنی سربراہی میں جسٹس عُمر عطا بندیال، جسٹس مُشیر عالم،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس اعجازالاحسن پر مُشتمل پانچ رُکنی بینچ کے سامنے مُقرر کیا تھا۔ دلچسپی کی بات ہے کہ جسٹس مقبول باقر نوٹس لینے والے بینچ کے رُکن تھے لیکن اُنکو سماعت کے لیے قائم کردہ بینچ میں شامل نہیں کیا گیا تھا اور سنیارٹی لِسٹ میں پانچویں نمبر پر براجمان صوفی طبعیت کے کھرے جسٹس مقبول باقر پر سنیارٹی لسٹ میں آٹھویں نمبر پر موجود معتدل مزاج اور مُثبت جسٹس اعجازالاحسن کو ترجیح دی گئی تھی۔

کمرہِ عدالت میں داخل ہوا تو داخلی راہداری میں پُرانے دوست اور نوجوان وکیل چوہدری عُثمان احمد سے مُلاقات ہوگئی۔۔ دونوں ہنس کر ملے اور میں نے پوچھا چوہدری صاحب آج سُپریم کورٹ خیریت سے؟ چوہدری عُثمان نے اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں جواب دیا یار ماتحت عدالت میں کیس لڑ لڑ کر تنگ آگیا تو آج سُپریم کورٹ کا لایسنس لینے آیا ہوں۔۔ چوہدری عُثمان احمد کی قابلِ رشک صحت کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے پنجابی میں جواب دیا کہ چوہدری صاحب جتنا آپ کا جُثہ ہے آپ کو سُپریم کورٹ کا وکیل ہی ہونا چاہیے۔۔ پھر ہم دونوں ہنستے ہوئے کمرہِ عدالت میں داخل ہوگئے اور میں نے ایک پہلی لائن میں ایک نشست سنبھال لی۔ کمرہِ عدات میں وُکلا جہانگیر جدون اور نوجوان وکیل کبیر ہاشمی سمیت رضا ربانی اور اٹارنی جنرل بھی بیٹھے تھے۔

ایک بجکر پانچ منٹ پر دربانوں نے آواز لگائی کہ کورٹ آگئی تو سب سے پہلے جسٹس مُشیر عالم کمرہِ عدالت میں داخل ہوئے اور پھر آخر میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس کے انتہایی دائیں جانب آکر بیٹھ گیے .انہوں نے سفید رنگ کا ماسک لگا رکھا تھا جبکہ اُنکے بائیں ہاتھ جسٹس مُشیر عالم اور پھر چیف جسٹس گلزار احمد بیٹھے تھے۔ چیف جسٹس گلزار احمد کے بائیں ہاتھ اگلے چیف جسٹس عُمر عطا بندیال اور جسٹس عُمر عطا بندیال بندیال کے بائیں پہلو والی نشست پر اُنکے ہی قریبی دوست جسٹس اعجازالاحسن بیٹھے تھے۔

سماعت کے آغاز میں ہی اٹارنی جنرل نے وزیراعظم دفتر کا جواب پڑھنا شروع کردیا اور عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ہمیشہ ترقیاتی فنڈز کو آئین اور قانون کی حدود میں رہتے ہوئے سُپریم کورٹ کے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کیس فیصلہ کی روشنی میں جاری کرنے کی بات کی ہے اور اگر کوئی بھی ترقیاتی فنڈز جاری ہوتے ہیں تو وہ عوام کی فلاح و بہبود کی اسکیموں کے لیے ہوتے ہیں اور وہ کسی ایم این اے یا ایم پی اے کے ہاتھ میں نہیں دیے جاتے۔ چیف جسٹس گُلزار احمد نے آبزرویشن دیتے ہویے سوال کیا کہ کوئی بھی ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کے لیے سُپریم کورٹ کا فیصلہ مدِ نظر رکھنا ضروری ہے کیا اِس کیس میں ایسا کیا گیا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ایسے کوئی فنڈز نہیں دیے گیے۔ اِس دوران چیف جسٹس نے وڈیو لِنک پر موجود سِندھ حکومت کے ایڈوکیٹ جنرل اور باقی صوبوں کے ایڈوکیٹ جنرلوں سے پوچھا تو انہوں نے بھی نفی میں جواب دیا کہ کوئی ترقیاتی فنڈز سینیٹ انتخابات سے قبل جاری کرنے کی بات نہیں کی گئی۔۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے واضح تردید کرتے ہوئے وڈیو لنک سے کراچی رجسٹری سے بتایا کہ نہ تو کسی ایم پی اے اور نہ ہی کسی وزیر کو فنڈز دیے گیے ہیں۔

اِس موقع پر جسٹس قاضی فایز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے سوال پوچھا کہ آپ نے جواب میں اگر کا لفظ استعمال کیا تو کیا آپ نے ایک راستہ کُھلا چھوڑ دیا ہے کہ جب چاہے ترقیاتی فنڈز جاری بھی کیے جاسکیں۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔ چیف جسٹس گُلزار احمد نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ ایک واضح تردید کریں کہ فنڈز جاری نہیں کیے جائیں گے۔ جسٹس قاضی فایز عیسیٰ نے چیف جسٹس گلزار احمد کی ہدایت کے بعد اٹارنی جنرل سے آرڈر پڑھنے کو کہا اور پوچھا کہ اِس مُلک کے وزیراعظم سے متعلق خبر آئی اور اُس پر ہم نے نوٹس لیا۔ اٹارنی جنرل نے آرڈر پڑھتے ہوئےاعتراف کیا کہ آرڈر خبر سے مُتعلق ہی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اگلا سوال کیا تو پھر خبر کی تردید کہاں ہے آپ کے جواب میں؟ اٹارنی جنرل کو خاموش دیکھ کر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ حکومت کی پراپیگنڈہ مشینری ہوتی ہے اور موجودہ حکومت کے وُزرا سارا دِن پریس کانفرنسوں سے بمباری کرتے رہتے ہیں لیکن اُنہوں نے اِس خبر کی تردید نہ کی۔ جسٹس قاضی فایز عیسیٰ نے مزید نشاندہی کرتے ہویے آبزرویشن دی کہ فی رُکن پچاس کروڑ کے ترقیاتی فنڈز دینے کی بات چھبیس فروری کو ہوئی اور ستائیس فروری کےڈان اخبار کے صفحہ اول پر یہ خبر شائع ہوئی جِس کے دو روز بعد ڈان اخبار نے اِس خبر پر ایڈیٹوریل بھی لکھا لیکن نہ تو وزیراعظم نے اور نہ ہی کسی وزیر نے تردید کی۔

جسٹس قاضی فایز عیسیٰ نے اِس موقع پر اہم ریمارکس دیتے ہویے کہا کہ اگر یہ فنڈز دینے کی بات گئی تو وزیرِ اعظم عمران خان نہ سُپریم کورٹ کے فیصلہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے توہینِ عدالت کی بلکہ سینیٹ انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لیے کرپٹ پریکٹس یعنی بدعنوان عمل بھی کیا۔ جب جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اٹارنی جنرل سے مُکالمہ کررہے تھے تو جسٹس عُمر عطا بندیال کے چہرے پر اضطراب تھا اور پھر جسٹس اعجاز الاحسن نے اٹارنی جنرل کو مُخاطب کرکے کہا کہ آپ ایک حتمی اور واضح تردید لائیں کہ وزیرِ اعظم سینیٹ انتخابات سے قبل کسی قسم کے ترقیاتی فنڈز جاری نہیں کریں گے اور ترقیاتی اسکیموں کے لیے آئیں اور قانون میں درج رولز سے رہنمائی لی جائے گی۔ اٹارنی جنرل نے جسٹس اعجاز الاحسن کو یقین دہانی کروائی کہ بالکل ایسا ہی ہوگا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک بار پھر سوال اُٹھایا کہ وزیراعظم اِس جواب میں یا تو واضح تردید کرتے کہ کسی قسم کے بھی ترقیاتی فنڈز نہیں دے رہے یا بتاتے کہ غلطی ہوگئی۔ اٹارنی نے جواب دیا کہ میڈیا میں چلنے والی خبر درست نہ تھی۔ جسٹس قاضی فایز عیسیٰ نے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں معلوم ہے پاکستان میں میڈیا کتنا آزاد ہے لیکن اگر غلط خبر آگئی تھی پاکستان کے وزیراعظم کے بارے میں تو وہ تردید کردیتے۔

اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان سے پوچھا کہ کیا انہوں نے وزیراعظم کا جواب تحریر کیا ہے یا پرنسپل سیکریٹری اعظم خان نے؟ کیونکہ اعظم خان سیاسی جماعت نہیں بیوروکریسی کا نمایندہ ہے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ انہوں نے جواب کے لیے خود وزیراعظم سے مُلاقات کی تھی ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو بتایا کہ آپ کا کام عدالت کی معاونت ہے۔ اِس کے بعد جسٹس اعجاز الاحسن نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو دوبارہ ہدایت دی کہ وہ ایک واضح اور حتمی جواب عدالت میں جمع کروائیں کہ وزیراعظم سُپریم کورٹ کے فیصلہ میں طے کردہ معیار اور قانون سے ہٹ کسی بھی قسم کے ترقیاتی فنڈز جاری نہیں کریں گے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے اِس موقع پر آرڈر لِکھوانا شروع کردیا کہ اٹارنی جنرل کل وزیراعظم کی طرف سے فنڈز جاری نہ کرنے کا واضح جواب جمع کروائیں تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پاس سے لُقمہ دیا کہ جواب پر وزیراعظم کے دستخط بھی ہونے چاہیے۔ اِس دوران جسٹس عُمر عطا بندیال نے جسٹس اعجازالاحسن کو سرگوشی کی۔ اٹارنی جنرل نے پانچ رُکنی لارجر بینچ کو یقین دہانی کروائی کہ وہ جواب پر وزیرِ اعظم عمران خان کے دستخط لیں گے۔ چیف جسٹس نے آرڈر میں لکھوا دیا کہ جواب پر وزیراعظم کے دستخط ہونے چاہیے اور سماعت کل ایک بجے تک کے لیے مُلتوی کردی۔۔ چیف جسٹس گُلزار احمد کے آرڈر لِکھوانے کے دوران ہی سبز شیروانیاں زیب تن کیے دربان ججز کی نشستوں کو پیچھے سے پکڑ کر کھڑے ہوچُکے تھے۔ جونہی تحریری حُکمنامہ ختم ہوا ججز اپنی نشستوں سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور دربانوں نے غیر محسوس انداز میں نشستیں پیچھے کھینچ لیں اور پانچوں معزز ججز گھوم کر کورٹ روم نمبر ون سے نکل گیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے