موت العالِم، موت العالَم

بیسویں صدی کے بڑے اور جیّد عالم‘ مولانا وحیدالدین خاں‘ دنیا سے رخصت ہوئے۔

خدا کا ایک بندہ جو پیغمبروں کی اتباع میں، تمام عمر رب سے ملاقات کی منادی کرتا رہا، اپنے رب کے سامنے پیش ہوگیا۔ میں تصور کرسکتا ہوں کہ پروردگارِ عالم کے دربار میں، ایک داعی الی اللہ کی یہ حاضری کیسی ہوگی۔ اس شان، اخلاص اور استدلال کے ساتھ آخرت کی تذکیر، واقعہ یہ ہے کہ اس امت میں صدیوں سے نہیں سنی گئی اورنہیں معلوم پھر کب سنی جائے گی ع
اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے

1988ء میرے لیے ایک مہربان سال تھا۔ اس سال مولانا وحیدالدین خاں اور جاوید احمد غامدی صاحب سے میرا شعوری تعارف ہوا۔ 1989ء میں جب جاوید صاحب کی صحبت نصیب ہوئی تواِن شخصیات کے کام کو علمی سطح پرسمجھنے کا ذوق پیدا ہوا۔ اگر ”جاوید نامہ‘‘ ان سے سبقاً سبقاً نہ پڑھاہوتا تو علامہ اقبال کوشاید اس طرح دریافت نہ کرپاتا۔ یہی معاملہ مولانا وحیدالدین خان اور دوسرے اہلِ علم کا بھی ہے۔

بطور عالم اور داعی، مولانا ایک بے مثل آدمی تھے۔ ان کی شخصیت کی تیسری جہت ادبی ہے۔ وہ ایک صاحبِ طرز ادیب اورانشا پرداز تھے۔ وہ دبستانِ شبلی ہی کے ایک فرد تھے جس سے منسوب شخصیات کے علمی کمالات ہی نہیں، اردو زبان و ادب کیلئے خدمات بھی ہماری روایت کا ایک شاندار باب ہے۔ دینی ادب کو مولانا نے ایک نیا لہجہ اوراسلوب دیا۔ ان کے جریدے ‘الرسالہ‘ کو دعوتی لٹریچرمیں کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔

بحیثیتِ عالم، ان کا سب سے بڑا کارنامہ دین کی سیاسی تعبیرپر عالمانہ تنقید ہے۔ یہ تنقید مولانا اشرف علی تھانوی نے کی اور مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے بھی کی۔ مولانا وحیدالدین خاں کی کتاب ‘تعبیر کی غلطی‘ مگر اس سے بہت آگے کی چیزہے۔ علمی متانت، عقلی و نقلی استدلال، قوتِ بیان و تاثیر اور دردِ دل کا ایسا مرقع، دینی لٹریچر میں شاید ہی مل سکے۔ اگر کوئی یہ سمجھنا چاہے کہ تنقید کا علمی معیار کیا ہوتا ہے تواسے یہ کتاب پڑھنی چاہیے۔

یہ کتاب ایک علمی رومان کے ٹوٹنے کا بیان بھی ہے۔ ایک علمی وصال اور ہجرکی داستان۔ جواس حادثے سے دوچار ہوا ہو، وہی جان سکتا ہے کہ اِس کا کرب کیا ہوتا ہے۔ ‘جنیاں تن میرے تے لگیاں، تینوں اک لگے تے توں جانے‘ (جتنی میرے جسم پر لگی ہیں، تمہارے جسم پر اس طرح کی ایک ضرب لگے تو تمہیں اس کی اذیت کا ادراک ہو) مولانا نے اس کتاب کے پہلے صفحے پرلکھا ”اس کتاب کی اشاعت میرے اوپرکتنی سخت ہے، اس کا اندازہ آپ اس سے کرسکتے ہیں کہ میرا جی چاہتا ہے‘ اس کے شائع ہونے کے بعد میں کسی ایسی جگہ پر جاکر چھپ جاؤں جہاں کوئی شخص مجھے نہ دیکھے، اور پھر اسی حال میں میں مر جاؤں‘‘۔

‘تعبیر کی غلطی‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تعبیرِ دین پرتنقید ہے۔ وہ مولانا مودودی کے پہلے باضابطہ ناقد ہیں جن کی رسائی مولانا کے فکری جوہر تک ہوئی۔ انہوں نے بتایاکہ یہ معاملہ تعبیرِ دین کا ہے، کسی ایک مسئلے میں علمی تفرد کا نہیں۔ مولانا مودودی، مولانا وحیدالدین خاں کے شعوری سفر کا پہلا پڑاؤہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب ‘علمِ جدید کا چیلنج‘ کو مولانا کا بالواسطہ فیض قراردیا ہے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسی قلم سے ‘تعبیر کی غلطی‘ لکھنا کتنا بارِخاطر ہوگا۔ مولانا مودودی کی علمی وجاہت اورفکری شکوہ میں کچھ کلام نہیں۔ مولانا وحیدالدین خاں نے اس فکر کا ‘جوابِ دعویٰ‘ (Anti thesis)، اُسی علمی شان کے ساتھ ہمارے سامنے رکھا۔ زندہ فکراسی طرح ارتقا کی منازل طے کرتاہے۔

مولانا کا دوسرا بڑا کارنامہ مسلم نفسیات کی تشکیلِ نو ہے جوان کے علمی کام ہی کا عملی اطلاق ہے۔ ماسبق مسلم مفکرین اور راہنماؤں کے زیرِ اثر، جو مسلم نفسیات پیداہوئی، وہ سیاسی تھی۔ اس کے نتیجے میں سیاسی عظمتِ رفتہ کی بازیافت، مسلمانوں کا اجتماعی نصب العین بنا۔ یہ ماضی کی فکری اسیری تھی، جس سے مولانا نے مسلمانوں کو نکالنے کی کوشش کی۔ انہوں نے بتایا کہ سیاسی غلبہ مادی دنیا کا ایک واقعہ ہے جس کا تعلق عالمِ اسباب سے ہے، دین سے نہیں۔
غلبے کی خواہش دوسروں کو حریف بناکر آپ کے سامنے لاکھڑا کرتی ہے۔ اس سے دیگر اقوام کے ساتھ آپ کا جوتعلق پیدا ہوتا ہے، وہ دنیاوی مفادات کے تصادم سے عبارت ہے۔ غیر مسلموں کے ساتھ، اہلِ اسلام کااصل تعلق داعی اور مدعو کا ہے۔ غلبے کی نفسیات اس تعلق کومجروح کرتی ہے۔ داعی مدعو کا خیرخواہ ہوتا ہے، دشمن نہیں۔ اسی لیے وہ کہتے تھے کہ ان کے دل میں کسی کیلئے کوئی نفرت نہیں۔ وہ اس دل کے ساتھ خداکے حضور پیش ہونا چاہتے ہیں جو نفرت سے خالی اورسب کاخیر خواہ ہے۔

انسانوں کے ساتھ سب سے بڑی خیر خواہی یہ ہے کہ انہیں آخرت کے عذاب سے خبردار کیاجائے اور ‘آخرت مرکز‘ (oriented) شخصیات وجودمیں آئیں۔ پیغمبر اسی لیے مبعوث ہوتے ہیں۔ اس باب میں وہ سرسید اور مولانا محمد الیاس کے وارث تھے۔ سرسید کی خیرخواہی کا ہدف مسلمانوںکی دنیاوی ترقی اور مولانا الیاس و مولانا وحیدالدین خاں کی مساعی کا حاصل اہلِ اسلام کی اُخروی نجات تھی۔

ا ن کا اصرار تھاکہ مسلمانوں کی سیاسی ایمپائر ختم ہوگئی لیکن ابلاغیات کی دنیا میں آنے والے انقلاب نے ان کیلئے یہ مواقع پیدا کردیے کہ وہ اپنی ‘دعوہ ایمپائر‘ کھڑی کرسکتے ہیں۔ وہ جدید ذہن کے شبہات دورکریں اور دین کولوگوں کی علمی دریافت بنا دیں۔ مولاناایک مدرسے کے فارغ التحصیل تھے۔ دعوت کے لیے انہوں نے طویل عرصہ جدید علوم سیکھے۔ انگریزی زبان میں مہارت پیدا کی اور پھر ایسا دعوتی لٹریچر تیارکر دیاکہ اس کی کوئی نظیر موجود نہیں۔

مولانانے بتایاکہ انسان کی اصل آزمائش خدا کی معرفت کا حصول ہے۔ یہ معرفت کوئی پراسرار واقعہ نہیں جو صوفیانہ مشاغل، چلوں اور ریاضتوں کا محتاج ہو۔ یہ ایک شعوری تجربہ ہے۔ یہ انفس و آفاق پرغور کافطری نتیجہ ہے۔ یہ بات اگرچہ ان کے لٹریچر میں روح کی طرح جاری و ساری ہے مگر ‘کتابِ معرفت‘ اس باب میں لاجواب ہے۔ اس کا ایک مضمون ‘اسمِ اعظم‘ میں نے کئی بار پڑھا اور ہرباریوں لگا کہ جیسے میرے دل پر اتر رہا ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے، مجھے محسوس ہواہے کہ خدا کی دریافت میرے لیے ایک حسی واقعہ ہے۔ مولاناکا فکر تنقید سے بالاتر تھا نہ ان کی ذات تسامحات سے پاک‘ لیکن سچ یہ ہے کہ انہیں اپنی سطح کے ناقد نہیں مل سکے۔ ان کے اکثر ناقدین ان کے فکری جوہر کا ادراک ہی نہیں کرپائے۔

روزمرہ کے واقعات کو آفاقی حقیقتوں سے جوڑنا مولانا کا خاص امتیازتھا۔ ایک مقام پرانہوں نے اپنے سفر کی روداد لکھی کہ وہ ایک ایئرپورٹ پر اترے توایک بزرگ آدمی کے طور پر انہیں خصوصی توجہ کا مستحق قرار دیاگیا۔ انہیں امیگریشن کیلئے قطار میں کھڑا نہیں ہونا پڑا اور ان کیلئے تمام مراحل آسانی سے طے ہوگئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں ایئرپورٹ سے نکلا تو میں نے دعاکی کہ اے پروردگار، جب میں آپ کے سامنے حاضر ہوں تو مجھے معذور جانتے ہوئے میرے ساتھ خصوصی برتاؤ کرنا اورمجھے حساب کتاب کی مرحلے سے اسی طرح آسانی کے ساتھ گزاردینا۔

اللہ کے آخری رسولﷺ سے روایت ہے کہ خدا بندے کے لیے ویسا ہی ہے جیسا وہ اس کے بارے میں گمان کرتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مولاناکے ساتھ بھی ویساہی معاملہ ہوگا جیسا انہوں نے گمان کیا۔ہم گواہ ہیں کہ وہ ایک صاف ستھری زندگی گزار کردنیا سے رخصت ہوئے۔ اللہ تعالیٰ مولانا کی غلطیوں سے درگرد فرمائے‘ انہیں اپنی مغفرت سے نوازے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے