بگ بینگ کے بعد سمندر

اللہ تبارک وتعالیٰ نے کائنات کی پیدائش کا آغاز فرمایا تو قرآن مجید میں آگاہ فرمایا کہ وہ انرجی اور حدت و حرارت کا ایک عظیم سمندر تھا۔ اسی میں تمام آسمان اور زمین بند تھے، وہ دونوں پھٹے تو جو اگلی چیز وجود میں آئی وہ پانی تھا۔ قارئین کرام! ہم نے اپنے الفاظ میں قرآن کے فرمان کا مفہوم بیان کیا ہے۔ اصل ترجمہ آگے چل کر پیش کریں گے‘ پہلے جدید ترین سائنسی ریسرچ ملاحظہ فرمائیں۔ یہ ریسرچ معروف سائنسی میگزین Journal SciPost Physics میں 29 مئی 2021ء کو شائع ہوئی۔ لندن کی ”کوئین میری یونیورسٹی‘‘ نے اس تحقیق کا آغاز کیا‘ پھر اس ریسرچ کو ”سرن لیبارٹری‘‘ کے تجربات سے گزارا گیا۔ وہاں دو ہزار عالمی سائنسدانوں نے مذکورہ ریسرچ اور تجربے میں حصہ لیا اور جب تجرباتی تحقیق سامنے آئی تو ”کوئین میری یونیورسٹی‘‘ میں فزکس کے پروفیسر کوسٹیا ٹراکینکو نے اس ریسرچ پر مضمون لکھا جو ”جرنل سائنس پوسٹ فزکس‘‘ میں شائع ہوا۔ مضمون نگار سائنسدان نے جو سرخی یا عنوان لکھا‘ وہ یوں تھا:
Quark-gluon, plasma, which filled the universe shortly after the big bang flows like water.

وہ مادہ جو پتلے خون اور دودھ کا حصہ ہوتا ہے اور بے رنگ ہوتا ہے‘ اسے ”کوارک گلون پلازما‘‘ کہا جاتا ہے۔ بگ بینگ کے کچھ دیر بعد اس مادے نے ساری کائنات کو بھر دیا تھا۔ یہ مادہ پانی کی طرح بہہ رہا تھا یعنی ساری کائنات ایک بڑے دھماکے کے بعد پانی کے سمندر میں تبدیل ہو گئی تھی۔ اب تفصیلی اور دو ہزار سائنسدانوں کا فیصلہ کن اقتباس ملاحظہ ہو!
What does quark gluon plasma the hot soup of elementary particles formed a few microseconds after the big bang have in common with tap water?
”کوارک گلون پلازما‘‘ کیا کرتا ہے، وہ بگ بینگ کے بعد ایک سیکنڈ کے کروڑویں حصے میں (بگ بینگ کی بے پناہ انرجی کو) ایٹم کے ابتدائی ذرات کے سوپ میں تبدیل کر دیتا ہے۔ کچھ اس طرح کہ اس کے اندر ہی جیسے پانی کا نل (نلکا) لگا ہوا ہو۔

سائنس دان کہتے ہیں کہ اس کے بعد
This then cooled microseconds later to form the building blocks of all the matter found within our universe.

تب یہ کائنات بعد کے چند مائیکرو سیکنڈز کے اندر ٹھنڈی ہو گئی اور مادے کے وہ سارے بنیادی اجزا وجود میں آ گئے جو آج ہماری کائنات میں موجود ہیں۔ قارئین کرام! مذکورہ تجربے میں روس کے بہت بڑے سائنسدان پروفیسر وادِن برازکن‘ جو ”روسی اکیڈمی آف سائنس‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں‘ کہتے ہیں کہ تمام کے تمام ذرات پانی کے اسی tap water سسٹم سے وجود میں آئے ہیں‘ یعنی بگ بینگ کے بعد کائنات پانی میں تبدیل ہو گئی اور پھر اسی سے تمام (پارٹیکلز) وجود میں آئے۔ قارئین کرام! پروفیسر صاحب دو ہزار سائنسدانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے مزید بتاتے ہیں کہ اس کے بعد ستاروں کے اندر نیوکلیئر پروسیس شروع ہوا اور پھر اس کے بعد The creation of essential biochemical elements needed for life.
ایسے انتہائی ضروری کیمیائی حیاتیاتی عناصر کی تخلیق کی گئی جو زندگی کے وجود کے لیے بنیادی اہمیت کے حامل تھے۔

اللہ تعالیٰ مردہ شئے سے زندگی کو کس طرح وجود میں لاتا ہے‘ اس کے لیے گزشتہ ہزاروں سالوں سے جو مثال دی جاتی تھی وہ مردہ انڈے سے زندہ چوزہ نکلنے کی مثال تھی۔ یہ بھی درست تھی اور ہے‘ مگر آج ساری دنیا کی مشترکہ اور سب سے بڑی لیبارٹری ”سرن‘‘ سے متعلق دنیا بھر کے دو ہزار سائنسدانوں نے واضح کر دیا کہ کائنات مردہ تھی اور اس میں سے حیاتیاتی عناصر تخلیق ہوئے‘ جن سے آگے چل کر زندگی وجود میں آئی۔ اب انہوں نے creation یعنی تخلیق کو تو تسلیم کیا مگر خالق Creator کو اب بھی تسلیم نہیں کیا اور ایٹموں، مالیکیولز کے بارے میں کہہ دیا کہ ان کے رویے حکمرانی کرنے لگے اور کائناتی قوتوں اور ”نیچر‘‘ نے خود بخود کام سنبھال لیے؛ یعنی مخلوق ہی خالق بن گئی۔ لوگو! اسی کا نام شرک ہے۔

اب ملاحظہ ہو اللہ خالق و مالک کا قرآن کہ وہ ایسے لوگوں کے بارے میں کیا فرماتا ہے اور جو ریسرچ آج سامنے آئی ہے اس کے بارے میں خاتم المرسلین حضرت محمد کریمﷺ پر نازل ہونے والا قرآنِ مجید کیا فرماتا ہے۔ ارشادِ گرامی ہے کہ سارے نبیوں کی دعوت ایک ہی ہے۔ اب چونکہ سابقہ نبیوں کی دعوت محفوظ نہیں رہی۔تحریف و تبدیلی کا شکار ہو گئی ہے لہٰذا سب نبیوں کے سردار اور امام حضرت رسولِ اقدسﷺ ہی کی دعوت حتمی سچائی اور آخری حق و سچ ہے۔ فرمایا: ”ان میں جو یہ کہے کہ اللہ کے علاوہ میں خود (کائنات کے عناصر میں سے بنا ہوا) خدا ہوں تو اسے ہم جہنم کی سزا دیں گے اور تمام ظالموں کو ہم ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں۔ یہ (خود کو عالم فاضل اور سائنسدان کہلانے والے لوگ) کہ جنہوں نے (خالق) کا انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے (اپنی آنکھوں اور جدید ترین آلات کے ذریعے بھی) دیکھا نہیں کہ تمام آسمان اور زمین جڑے ہوئے بند تھے اور ہم نے انہیں پھاڑ کر الگ کر دیا۔ (بے پناہ انرجی کو لیکوڈ واٹر میں بدل دیا) اور (اس کے بعد) ہم نے ہر شئے کو پانی سے زندگی عنایت فرمائی۔ (حیرت ہے) کیا یہ لوگ (تمام حقائق دیکھ کر بھی) ایمان نہیں لائیں گے۔

ہم ہی نے زمین میں گاڑے ہوئے پہاڑ پیدا کیے کہ زمین اپنے باسیوں کو لے کر ڈولنے نہ پائے۔ اور ہم ہی تو ہیں کہ جس نے اس زمین میں کھلے ڈلے راستے بنائے تا کہ راہوں پر راہی بنے رہیں۔ ہم ہی نے آسمان کو محفوظ چھت بنا دیا۔ صورتحال یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کے نشانات سے منہ پھیرے جا رہے ہیں۔ ہاں ہاں! وہی اللہ ہی تو ہے کہ جس نے رات، دن، سورج اور چاند کو پیدا کیا۔ سب اپنے اپنے مدار (اور راستوں پر) تیرتے جا رہے ہیں۔ (پیارے مصطفیﷺ!) ہم نے آپﷺ سے قبل کسی بشر کے لیے یہاں ہمیشہ رہنا طے نہیں فرمایا (جیسا کہ یہ لوگ آپ کی زندگی کے درپے ہیں) (اگر)آپ دنیا چھوڑ دیتے ہیں تو بھلا یہ کب کوئی یہاں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ (یاد رکھو!) ہر جان موت کا ذائقہ چکھ کر رہے گی۔ ہم تم لوگوں کو آزمائش کی خاطر بُری‘ بھلی حالتوں میں مبتلا کرتے ہیں۔ آخر کار! تم سب کو ہماری طرف ہی واپس پلٹ کر آنا ہے (پھر تمہارے کفر کو ہم دیکھ لیں گے)۔ (الانبیاء: 29 تا 35)

قرآن مجید کے بعد سب سے صحیح ترین حدیث کی کتاب صحیح بخاری شریف ہے۔ امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ اس میں ”بدئُ الخلق‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لائے ہیں یعنی مخلوق کا آغاز کیسے ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ ایک حدیث روایت کرتے ہیں۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ راوی ہیں، کہتے ہیں: میں حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، یمن سے ایک وفد (9 ہجری) میں یہاں حاضر ہوا تھا۔ وفد کے لوگ عرض کرنے لگے: ہم آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں تا کہ کائنات کی تخلیق کے بارے میں سوال عرض کریں۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ موجود تھا اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے لوحِ محفوظ میں ہر شئے لکھ دی تھی۔ اللہ ہی نے آسمانوںاور زمین کو پیدا فرمایا۔ (بخاری: 3191) قارئین کرام! احادیث سے پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی مخلوق عرش ہے۔ عرش کے نیچے پانی تھا۔ اس کے بعد ساری مخلوق پانی سے وجود میں آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ”کُن‘‘ کہا۔ توانائی اور قوت کا ایک بیکراں سمندر وجود میں آ گیا۔ اسی سمندر میں عرش کے نیچے والے پانی سے کچھ پانی آ کر ملا۔ یوں یہ کائنات مادی شکل میں ڈھلنے لگی۔

اسی مادی صورت میں زندگی کے عناصر وجود میں آئے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو ڈیزائن طے کیا ہوا تھا، اس کے مطابق یہ کائنات آگے بڑھتی چلی گئی۔ یہ جب واپسی کا سفر شروع کرے گی تو انہی مراحل کو تیزی سے طے کرتی ہوئی واپسی کا سفر شروع کر دے گی۔ اسی سورۃ کے آخر پر مولا کریم فرماتے ہیں کہ: ”جس دن ہم آسمان کو اسی طرح لپیٹ دیں گے جیسے کاغذوں کے طومار (رول) میں تحریروں کو لپیٹ دیا جاتا ہے۔ جس طرح ہم نے پہلی تخلیق کا آغاز کیا تھا، واپس اسی طرح (نکتے) تک لے جائیں گے۔ دہرا کر (ختم کر دیں گے)۔ (الانبیاء: 104) قرآن میں دوسرے مقام پر فرمایا کہ پھر اس زمین کی جگہ ایک دوسری زمین اور آسمان وجود میں آ جائیں گے اور نئی زمین پر حشر کا میدان سجے گا۔ لوگو! سائنس بہت پیچھے ہے۔ آج کے سائنسی انکشافات کے زمانے میں قرآن کے علمی معجزات سامنے آ رہے ہیں۔ یہ قیامت تک سامنے آتے رہیں گے۔ حضور کریمﷺ کے الہامی فرمودات بھی معجزات بن کر نمایاں ہوتے رہیں گے۔ ہدایت پانے والے ہدایت پاتے جائیں گے۔ جنت الفردوس کے راہی بنتے چلے جائیں گے۔ یا اللہ! ہمیں ہدایت یافتہ لوگوں میں سے کر دے، آمین!

بشکریہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے