ہرقل روم، دل کی گواہی اور ’’کینیڈین حادثہ‘‘

اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ”قرآنِ مجید‘‘ کے بعد صحت و سند کے لحاظ سے سب سے بلند مرتبہ حدیث کی جو کتاب ہے وہ امام محمد بن اسماعیل رحمۃ اللہ کی صحیح بخاری ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ اپنی کتاب کا آغاز جس باب سے کرتے ہیں اس کا عنوان ہے ”اللہ کے رسولﷺ کے ہاں وحی کا آغاز کس طرح ہوا ہے؟ ‘‘ جی ہاں! اس کے بعد امام بخاری رحمۃ اللہ ”غارِ حرا‘‘ میں نزولِ وحی کا پہلا واقعہ لاتے ہیں۔ ہمارے حضورﷺ ”اقرا‘‘ کا پیغام حضرت جبریل علیہ السلام سے وصول فرماتے ہیں اور گھر میں تشریف لاتے ہیں تو اپنی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت سیدہ خدیجہؓ سے فرماتے ہیں کہ مجھے کمبل اوڑھا دو۔ گھبراہٹ دور ہوتی ہے تو سارا ماجرا بیان فرماتے ہیں اور اپنی جان کے بارے خوف کا اظہار فرماتے ہیں۔ حضرت خدیجہؓ اپنے عظیم شوہر کو تسلی دیتے ہوئے فرماتی ہیں: اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کی عزت و تکریم میں کبھی کمی نہ ہونے دے گا (دوسری روایت میں ہے، کبھی غم کا شکار نہ ہونے دے گا) کیونکہ 1: آپ رشتہ داری کو ملاتے ہیں۔ 2: بے بس کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ 3: کما کر تہی دست کی جیب میں ڈال دیتے ہیں۔ 4: مہمان نوازی کرتے ہیں۔ 5: جھگڑے اور تنازعے میں حقدار کی مدد کرتے ہیں۔ 6: (بات کرتے ہیں تو سچ بولتے ہیں :4953) ۔قارئین کرام! سچ بولنے والی بات صحیح بخاری میں دوسری جگہ پر ہے اس لیے اسے بریکٹ کر کے حدیث نمبر دے دیا ہے، یعنی آپﷺ میں انسانیت کی ہمدردی کے حوالے سے جو مذکورہ چھ خوبیاں ہیں ان کے حامل کو اللہ تعالیٰ عزتوں سے مالا مال فرماتے ہیں۔

اب حضرت خدیجہؓ نے حضور کریمﷺ کا ہاتھ مبارک پکڑا اور ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ ورقہ بن نوفل حضرت خدیجہؓ کے تایا زاد بھائی تھے۔ (یاد رہے! ورقہ بن نوفل اور زید بن عمرو‘ یہ دو ایسے سلیم الفطرت آدمی تھے جو بت پرستی کے دور میں بتوں کی پوجا سے بے زار تھے بلکہ اس سے نفرت کرتے تھے؛ دونوں حق کی تلاش میں شام گئے جہاں ورقہ کو ایک عیسائی راہب ملا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا نہیں مانتا تھا؛ چنانچہ ورقہ عیسائی ہو گئے، جبکہ حضرت زید دینِ ابراہیمی پر توحید کی دعوت دیتے رہے اور بچیوں کو مارنے سے منع کرتے رہے) حضرت ورقہ بن نوفل انجیل کی بعض عبارتیں عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے۔ وہ مکہ میں رہتے ہوئے انتہائی بوڑھے اور نابینا ہو گئے تھے۔ حضرت خدیجہؓ نے ان سے کہا: میرے تایا کے بیٹے! ذرا ان کی بات سنئے۔ اب حضورﷺ نے سارا واقعہ بیان کیا تو حضرت ورقہ کہنے لگے: ”یہ تو وہی ناموس یعنی صاحبِ راز فرشتہ (جبریل) ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجا تھا۔ کاش! میں (آنے والے اس وقت میں) قوت والا ہوتا اور میں تب تک زندہ رہتا کہ جب آپﷺ کی قوم آپ کو (مکہ) سے نکال دے گی۔ حضورﷺ نے پوچھا: کیا میری قوم مجھے دیس نکالا دے گی؟ ہاں! یاد رکھیے جیسا پیغام آپﷺ کو ملا ہے۔ ایسا پیغام جو (نبی) بھی لے کر آیا‘ اس کے ساتھ (ایسی) ہی دشمنی کی گئی اور اگر میں تب تک زندہ رہا تو میں پوری طاقت کے ساتھ آپ کی مدد کروں گا۔ اس کے تھوڑے دنوں بعد حضرت ورقہ بن نوفل فوت ہو گئے اور وحی کے سلسلے میں وقفہ آ گیا‘‘۔ (صحیح بخاری :3)

شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ حدیث لائے ہیں کہ حضور کریمﷺ نے فرمایا: ” میں نے اس (ورقہ بن نوفل) کے لیے ایک باغ بلکہ دو باغ دیکھے ہیں‘‘۔ (سلسلہ صحیحہ: 405) ”مسند ابویعلی‘‘ 299/2 کی تحقیق میں مولانا ارشاد الحق اثری حدیث لائے ہیں کہ حضور کریمﷺ نے فرمایا: ”میں نے اس (ورقہ) کو جنت کے دو باغوں میں دیکھا ہے‘ اس پر سندس ریشم کا لباس تھا۔ قارئین کرام! مندرجہ بالا تحقیق لانے کا مقصد یہ ہے کہ حضور ختم المرسلینﷺ کی نبوت کی تصدیق سب سے پہلے ایک مسیحی نے کی اور ”فترتِ وحی‘‘ کے دوران وہ فوت ہوئے تو جنت میں چلے گئے اور جب ”وقفہ وحی‘‘ ختم ہونے پر حضورﷺ نے نبوت کا اعلان فرمایا تو سب سے پہلے حضرت صدیق اکبرؓ نے اسلام قبول کیا۔ اسی طرح گھر کے افراد میں سب سے پہلے حضرت خدیجہؓ اور حضرت علیؓ نے اسلام کو قبول کیا۔

صحیح بخاری کی پہلی کتاب جو آغازِ وحی سے متعلق ہے اس کی آخری یعنی ساتویں حدیث میں اس دور کی سپر پاور قسطنطنیہ (استنبول) کی رومی سپر پاور کے بادشاہ ہرقل کا تذکرہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے اسے اسلام کی دعوت دی۔ یاد رہے! صلح حدیبیہ کے بعد حضورﷺ نے ریاستِ مدینہ کے حکمران کی حیثیت سے مختلف سربراہانِ حکومت کو خطوط لکھے تھے۔ ہرقل کو بھی خط مبارک لکھا۔ یہ خط حضرت دحیہ کلبیؓ نے شاہِ غسان کو دیا تھا کہ وہ ہرقل تک پہنچا دے۔ ہرقل جب یروشلم؍ ایلیا (القدس) آیا تو پتا چلا کہ مکہ کے تاجروں کا ایک وفد ”ایلیا‘‘ یعنی یروشلم آیا ہوا ہے؛ چنانچہ اس نے اس وفد کو اپنے دربار میں بلا لیا۔ وفد کے سردار حضرت ابو سفیانؓ (جو تب مسلمان نہ تھے) کو اپنے سامنے بٹھا لیا۔ وفد کے لوگوں کو اس کے پیچھے بٹھا دیا اور ترجمان کے ذریعے حضورﷺ کے بارے میں دس سوال کیے۔ حضرت ابو سفیانؓ نے جوابات دے دیے تو ہرقل نے سوالوں اور جوابات کی وضاحت کرتے ہوئے واضح کر دیا کہ حضرت محمدﷺ سچے اور آخری رسول ہیں۔ اس نے کہا: ابو سفیان نے جو جوابات دیے وہ سچ ہیں تو وقت آنے والا ہے کہ جہاں میرے قدم ہیں‘ یعنی یروشلم‘ اس جگہ کے مالک حضرت محمدﷺ بن جائیں گے۔

مجھے یہ تو پتا تھا کہ آخری نبی کا ظہور ہونے والا ہے مگر یہ معلوم نہ تھا کہ وہ تم قریش میں سے ہوں گے۔ اگر مجھے یقین ہوتا کہ میں ان تک پہنچ جائوں گا تو ان سے ملاقات کے لیے ہر طرح کی مشقت اٹھاتا اور جب ان کے پاس پہنچ جاتا تو ان کے پائوں (مبارک) دھوتا۔ حضورﷺ نے ہرقل کے نام خط مبارک بھی لکھا تھا۔ حضرت دحیہ کلبیؓ کے ہاتھوں یہ خط بھی ہرقل کو ایلیا میں مل گیا، اس نے خط مبارک بھی پڑھ لیا۔ اب ہرقل نے سب سے بڑے مسیحی عالم کو جو روم میں تھا‘ خط میں حضورﷺ کے بارے تفصیل سے لکھا اور رائے طلب کی۔ اس کے بعد ہرقل یہاں سے چلا اور شام کے شہر حمص میں آ گیا۔ یہاں حمص میں رومی عالم کا جواب بھی آ گیا۔ رومی عالم نے کہا کہ حضرت محمد کریمﷺ اللہ کے سچے اور آخری رسول ہیں۔

چنانچہ ہرقل نے حمص میں اپنا دربار لگایا۔ بڑے مذہبی رہنمائوں، حکام اور اہم لوگوں کو بلایا۔ پھر بڑے دربار کے دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا اور سب کو مخاطب کر کے کہا: کیا تم لوگوں کو کامرانی، بھلائی اور اس بات کی خواہش ہے کہ تمہاری حکمرانی قائم رہے؟ ایسا چاہتے ہو تو اس نبی (حضرت محمد کریمﷺ) کے ہاتھ پر بیعت کر لو۔ اب کیا تھا‘ سارے لوگ جنگلی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف بھاگے، مگر وہ تو بند تھے۔ جب ہرقل نے ان کی اس حرکت کو دیکھا اور ان کے ایمان لانے سے مایوس ہو گیا تو دربانوں سے کہا: انہیں میرے پاس لائو۔ وہ آ گئے تو ان سے کہا: میں نے ابھی جو بات کہی تھی وہ تمہارے امتحان کی خاطر کی تھی کہ تم اپنے مسیحی دین پر کس قدر پختہ ہو۔ اب میں نے وہ پختگی دیکھ لی ہے۔ اس پر سب نے ہرقل کو سجدہ کیا اور دربار برخاست ہو گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ آج کے علمی اور سائنسی انکشافات نے واضح کر دیا ہے کہ حضرت محمد کریمﷺ کا لایا ہوا دین جدید ترین ہے۔ قیامت تک کے لیے تازہ ہے؛ چنانچہ امریکا، یورپ، جاپان وغیرہ کے لوگ علمی اور سائنسی انکشافات کو دیکھ کر مسلمان ہو رہے ہیں۔ بڑھتی تعداد کو دیکھ کر مسلمانوں کے خلاف اسلاموفوبیا کی مہم چلا دی گئی ہے۔ گوروں اور رنگداروں کے درمیان نفرت کی مہم بھی شروع کر دی گئی۔ ٹرمپ ایسے ہی نعروں سے برسر اقتدار آیا تھا۔ یورپ کے کئی ملکوں میں بھی ایسے لوگ قوت پکڑ چکے ہیں مگر عام مسیحی لوگوں کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ ایسے رویوں کو پسند نہیں کرتے۔ نیوزی لینڈ اور کینیڈا‘ یہ دو ایسے ملک ہیں کہ جن کے وزرائے اعظم انسان دوست ہیں۔ طلوعِ آفتاب کی ابتدائی کرنیں نیوزی لینڈ میں پڑتی ہیں تو آخری کرنیں کینیڈا میں پڑ کر الوداع ہوتی ہیں۔

موجودہ وزیراعظم جسٹس ٹروڈو سے پہلے کینیڈا میں حکمرانی کے دو ادوار ایسے گزرے ہیں کہ جن میں انسانیت کے مابین امتیازی قوانین بنائے گئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں معاشرے کے اندر انتہا پسندی پیدا ہوئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے وزیراعظم جسٹس ٹروڈو سے اس پر بات کی ہے۔ پاکستان کے شہر لاہور سے تعلق رکھنے والی فیملی کہ جس کے پانچ افراد پر 20 سالہ ظالم نوجوان نے ٹرک چڑھا دیا‘ ان میں سے چار افراد تو موقع پر ہی اپنے اللہ رحمن سے جا ملے۔ سید افضال کی عمر 56 سال تھی‘ ان کی اہلیہ کی 44 سال جبکہ بیٹی 15 سال کی تھی۔

فیض‘ جو 9 سال کا بچہ ہے‘ زخمی حالت میں ہسپتال میں ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے صحت عطا فرمائے اور اس کے پیاروں کو جنت الفردوس عطا فرمائے، آمین!

کینیڈین حکومت نے قاتل کو دہشت گرد قرار دیا ہے اور اس پر دہشت گردی کا ہی مقدمہ قائم کیا ہے۔ پولیس چیف ولیم نے کہا کہ یہ نوجوان نفرت کے پروپیگنڈے سے متاثر تھا۔ کینیڈا میں کئی دنوں سے پرچم سرنگوں ہیں۔ وزیراعظم جسٹس ٹروڈو نے جو گفتگو کی اس کا آغاز السلام علیکم سے کیا اور کہا ”کینیڈا میں دہشت گردی اور اسلاموفوبیا کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ 9 سالہ بچہ جس کے پیارے ہم سے بچھڑ گئے۔ میں اس کو کیا جواب دوں؟‘‘ کینیڈا کے لوگوں اور جسٹن ٹروڈو نے اپنی روایات کے مطابق دل فگار سانحہ کی جگہ پر پھول رکھے۔

مقتول خاندان کے گھر کے باہر بھی پھولوں کے ڈھیر لگ گئے۔ مطلب اور پیغام تو یہی ہے کہ نفرت کے علمبرداروں کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ معصوم انسانی پھولوں کو کچل اور مسل ڈالیں۔ کینیڈا میں بڑی بڑی ریلیاں منعقد کی گئیں۔ مخصوص وردی پہنے مرد اور خواتین کینیڈین ڈھول پیٹ پیٹ کر اعلان کر رہے تھے "We are with you”۔ (اے مظلومو!) ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ بینرز پر لکھا ہوا تھا: Love for all hatred for none یعنی محبت سب کے لیے، نفرت کسی کے لیے نہیں۔

(اس کا مذہب جو بھی ہو، اور رنگ و زبان جیسی بھی ہو)۔ یہ بھی لکھا ہوا تھا ”ہم سب انسان ہیں‘‘۔ امریکا اور یورپ کی ترقی یافتہ حکمرانی اچھی طرح جانتی ہے کہ نفرتوں کے سوداگر بن کر وہ جنگ عظیم اول اور دوم میں تباہ ہوئے اور پھر محبتوں کے سوداگر بنے تو دنیا بھر کی ذہانت کو اکٹھا کر لیا اور ترقی یافتہ بن گئے۔ اگر نفرتیں دوبارہ عروج پکڑیں گی تو زوال اور ذلت و ادبار سامنے کھڑا منہ تک رہا ہو گا۔ اپنے کالم کا اختتام اس یاددہانی پر کرنے جا رہا ہوں کہ ہرقل نے حضرت محمد کریمﷺ کو پہچان لیا تھا‘ وہ روم کی مشرقی حکمرانی میں دنیا کا سب سے بڑا بادشاہ تھا۔ عالم بھی تھا۔ روم کے اس دور کے ویٹی کن کا جو سب سے بڑا عالم تھا‘ اس نے بھی حضورﷺ کی نبوت کے حق ہونے پر ہرقل کا ساتھ دیا تھا مگر جو اشرافیہ تھی، مذہبی اور سیاسی ایلیٹ کلاس تھی‘ اس نے حق پر مکالمے کے بجائے بھاگنا چاہا تو ہرقل کو پینترا بدلنا پڑا۔ یہ سیاسی پینترا تھا مگر دل تو حضورﷺ کی نبوت کا والا و شیدا ہو چکا تھا۔ دل کا راز قیامت کو کھلے گا۔ آج بھی دنیا بھر میں دل کو دلیل کی راہ پر چلنے کی آزادی ہونی چاہیے‘ دل آزاری نہیں ہونی چاہیے۔ اسی سے ہم انسان کہلائیں گے۔ اسی سے امن اور محبت کی نعمت پائیں گے۔

بشکریہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے