جب امام بخاریؒ کا ’’خرتنگ‘‘ دیکھا

اللہ کے غالب فیصلے کا نظارہ آج سے 32 سال قبل اس وقت کیا جب ”سوویت یونین‘‘ نے افغانستان کو چھوڑ دیا اور پھر اس نے وسط ایشیائی ریاستوں کو بھی آزاد کر دیا۔ امام بخاریؒ کا دیس بخارا بھی آزاد ہوا‘ اسلام آباد اور تاشقند کے درمیان فضائی روٹ آن ایئر ہوا۔ امام بخاریؒ کا دیس دیکھنے کا شوق تھا؛ چنانچہ میں تاشقند جا پہنچا۔ تاشقند ازبکستان کا دارالحکومت ہے۔

میں وہاں سے بخارا گیا۔ فارس جب سپر پاور تھا تو وہاں کا مذہب آتش پرست تھا جس کے حاملین کو مجوسی کہا جاتا ہے۔ بخارا پر انہی کا قبضہ تھا؛ لہٰذا وہاں کے لوگ بھی مجوسی تھے۔ کچھ بودھ مت کے پیروکار بھی تھے۔ اس شہر میں ایک بازار تھا جہاں بت فروخت ہوا کرتے تھے۔ اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ ہجرت کے گیارہویں سال اس دنیا کو چھوڑ کر فردوس میں تشریف لے گئے تو ان کے تشریف لے جانے کے صرف 80 سال بعد مسلمانوں نے عراق، ایران اور افغانستان کو فتح کرنے کے بعد بخارا کو بھی فتح کر لیا۔ تب وہاں کا حاکم ”وردان خدّہ‘‘ تھا۔ معروف مسلمان جرنیل قتیبہ بن مسلم‘ جو طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم کے ہمعصر تھے‘ نے 90ھ میں بخارا کو فتح کر لیا۔ سب لوگ مسلمان ہو گئے تو قتیبہ بن مسلم نے ان پر حاکم مقرر کیا اور خود دیگر مہمات میں مصروف ہو گئے۔

ان کے جانے کے بعد بخارا کے اکثر لوگ اسلام کو ترک کر بیٹھے۔ اب حضرت قتیبہ بن مسلمؒ جو ایک داعی الیٰ اللہ بھی تھے‘ کو احساس ہوا کہ فتح کا اصل مقصد تو دعوت تھا‘ اس کا تقاضا پورا نہیں کیا گیا؛ چنانچہ انہوں نے وہاں کے لوگوں سے کہا کہ وہ اپنے گھروں کا ایک حصہ ان مسلمانوں کو دیں جو میرے ساتھ آئے ہیں۔ یہ زیادہ تر عرب لوگ تھے؛ چنانچہ کچھ لوگوں نے گھروں کا ایک حصہ دیا؛ باقیوں نے شہر کے باہر نئے گھروں کا تقاضا کیا، یوں نئے گھر بنائے گئے اور بخارا کی پرانی اور نئی آبادی میں مسلمان، مجوسی اور بدھسٹ مل جل کر رہنے لگ گئے۔ مسلمانوں کا اچھا کردار دیکھ کر اور ان کی دعوت کے اثرات سے دوبارہ سب لوگ ایمان لے آئے، مگر اب وہ پختہ اور عملی طور پر مسلمان ہوئے۔ بخارا کے قلعہ میں 94 ہجری میں قتیبہ بن مسلم نے ایک بڑی جامع مسجد بنوائی۔ پہلے یہاں بت ہوتے تھے مگر اب ان کا کوئی پجاری نہ رہا تھا اور یوں یہاں مسجد بن گئی۔ میں نے اس قلعے کو بھی دیکھا، بخارا کا معروف ”مدرسہ میرِ عرب‘‘ بھی دیکھا۔ حضرت امام بخاریؒ کے پڑدادا اسی بخارا کے رہنے والے تھے۔ وہ مجوسی یعنی آتش پرست تھے‘ ان کا نام بردِزبہ تھا۔ بردزبہ کے بیٹے جناب مغیرہؒ مسلمان ہو گئے۔ جناب مغیرہ کو اللہ تعالیٰ نے بیٹا دیا تو اس کا نام ابراہیم رکھا گیا۔ ابراہیم کو بیٹا عطا ہوا تو اس کا نام اسماعیل رکھا گیا۔ جناب اسماعیل ایک مالدار آدمی تھے۔ بخارا کے معروف تاجر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بیٹا دیا تو اس کا نام محمد رکھا گیا۔

آج سے 32 سال قبل اسی بخارا شہر میں بیٹھا میں سوچ رہا تھا کہ میری سعادت کہ آج اس شہر میں ہوں جو امام محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بخاری کا شہر ہے۔ اس مادی دنیا میں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے مادی جسم کی آخری منزل بخارا نہیں بلکہ ”خرتنگ‘‘ نامی گائوں ہے؛ چنانچہ میں سمرقند گیا۔ یہ بادشاہ تیمور لنگ کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔ تیمور لنگ کی قبر پر گیا تو سوچ رہا تھا کہ اس نے سمرقند کو اپنے زمانے کا لندن، پیرس اور واشنگٹن بنا دیا تھا۔ جو بھی بنا لو‘ آخری مادی ٹھکانا چھ فٹ لمبی اور تین چار فٹ چوڑی جگہ ہی ہے جس کا نام قبر ہے اور وہ بھی زیرِ زمین ہے۔سمر قند سے پتا چلا کہ دس کلو میٹر کے فاصلے پر ”خرتنگ‘‘ ہے۔ اب میں سیدھا ”خرتنگ‘‘ جا پہنچا۔ قارئین کرام! میں 32 سال بعد آج اپنے سفر کی یادیں اس لیے تازہ کر رہا ہوں کہ ”سوویت یونین‘‘ نے افغانستان پر دس سال تک قبضہ کیے رکھا اور جب گیا تو بخارا بھی آزاد کر گیا اور خود دوبارہ ”روس‘‘ بن گیا۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں یہاں امریکا آ گیا۔ 20 سال بعد وہ بھی 4 جولائی 2021ء تک‘ اپنے یومِ آزادی کے موقع پر چلا جائے گا۔ کچھ افواج اس نے نکال لی ہیں‘ تھوڑی سی باقی رہ گئی ہیں۔ حضور کریمﷺ کی امت اپنے آخری دور میں ہے اس لیے حالات کا دھارا انتہائی تیز سے تیز تر ہوتا جا رہا ہے۔ میری عمر اب 63ویں سال میں ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کیا سے کیا ہوا جا رہا ہے‘ اللہ تعالیٰ میرے وطن عزیز اور سارے خطے کو امن کی نعمت عطا فرمائے، آمین!

بخارا اور خرتنگ کی یادوں کو تازہ کرنے کا اہم ترین سبب یہ بھی بنا کہ حضرت حافظ عبدالسلام کہ جنہوں نے چار جلدوں میں قرآن مجید کی تفسیر ”تفسیر القرآن الکریم‘‘ تحریر کی‘ وہ اب صحیح بخاری کی شرح لکھ رہے ہیں۔ ترجمہ اور شرح کی پہلی جلد ”فتح السلام‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ حافظ صاحب نے نصف صدی کے قریب حدیث شریف پڑھائی ہے۔ وہ ادیب اور خطیب ہیں۔ وہ پہلی جلد کے مقدمے میں حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے والد جناب اسماعیل کے بارے میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی موت سے پہلے کہا کہ ”زندگی بھر ان کے مال میں ایک پائی بھی حرام کی شامل نہیں رہی‘‘ اللہ اللہ! اسی حلال مال کی برکت تھی کہ وہ تو امام بخاری کو چھوٹی عمر میں یتیم چھوڑ گئے تھے۔ ماں نے انہیں پالا اور اللہ تعالیٰ نے بیٹے کو صحیح بخاری کی صورت میں وہ انعام دیا کہ سارے جہان کی دولتیں اس نعمت پر قربان! قارئین کرام! اب حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی ایمان افروز بات سنئے۔ بکیر بن منیر کہتے ہیں: میں نے امام بخاری رحمہ اللہ سے سنا، فرماتے تھے: ”مجھے امید ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کروں گا کہ وہ میرا محاسبہ اس بات پر نہیں کریں گے کہ میں نے کسی کی غیبت کی ہے‘‘ ۔آئیے! ہم بھی اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں کہ ہمارے سینوں کے سینکڑوں ”یو ایس بیز‘‘ میں کتنے ٹن غیبتوں، چغلیوں اور چغلیاں کرنے کے لیے جاسوسیوں کی گانٹھیں بندھی پڑی ہیں۔ ان کو موت کے بعد بہر حال کھلنا ہے۔ آگے چلیں! محمد بن ابی حاتم‘ جو امام بخاریؒ کے ساتھی تھے اور ان کی کتابوں کو لکھنے اور پھیلانے کے نظام کے ذمہ دار تھے‘ فرماتے ہیں کہ میں نے امام بخاری رحمہ اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اگلے جہان میں میرے خلاف کوئی شخص حق مانگنے کا جھگڑا لے کر آنے والا نہ ہوگا۔ اللہ اللہ! نہ دنیا کے مال کا حق ، نہ کسی کو برا بھلا کہنے کا حق، نہ دل دکھانے کا حق، یعنی کوئی بھی حقدار نہ ہوگا جو حق لینے آئے گا۔ یہ تھے ہمارے اسلاف جو حضور اکرمﷺ کی حدیث اور سیرت کے محافظ تھے۔

امام بخاری اپنے استاد گرامی حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے بغداد سے رخصت ہوئے۔ دیس میں آنے کو دل کیا۔ موجودہ ایران کے شہر نیشاپور آئے۔ یہ امام مسلمؒ کا شہر تھا۔ یہاں پر والہانہ استقبال ہوا۔ امام مسلمؒ نے محبت کی انتہا کر دی مگر بعض دیگر کی طرف سے حسد شروع ہوا تو امام بخاریؒ کو یہاں سے نکلنا پڑا۔ بخارا تشریف لے گئے جہاں فقید المثال استقبال ہوا۔ پھر حسد شروع ہو گیا اور بخارا کا حاکم بھی ناراض ہو گیا۔ وہ چغلیوں کا شکار ہو گیا۔ امام بخاریؒ کو بخارا سے نکال دیا گیا۔ وہ بیقند اور سمر قند سے ہوتے ہوئے ”خرتنگ‘‘ آ گئے۔ یہاں ان کے عزیز ابو منصور غالب رہتے تھے، وہ بھی بڑے عالم تھے۔ قارئین کرام! میں خرتنگ کی گلیوں، بازاروں اور مکانوں کو دیکھ رہا تھا۔ سمر قند کے لوگوں نے کہا کہ آپ ہمارے پاس تشریف لے آئیں۔ امام بخاریؒ تیار ہو کر یہیں کے ایک گھر سے نکلے۔ محمد بن ابی حاتم کہتے ہیں کہ کوئی تیس قدم چلے ہوں گے‘ ان کے عزیز مولانا ابو منصور غالب ان کا بازو تھامے ہوئے تھے‘ فرمانے لگے: مجھے چھوڑ دو۔ انہوں نے چھوڑا تو واپسی کی راہ پکڑی۔ فرمانے لگے: کمزوری محسوس ہو رہی ہے۔ گھر آ کر کمرے میں بستر پر لیٹ گئے۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہو گئے۔

(لا الہ الا اللہ، سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم، دعائوں اور رب کریم کی یاد میں بولتے بولتے خاموشی اور پھر) اپنے اللہ کے پاس پہنچ گئے۔ پھر وہ پسینے میں شرابور ہو گئے۔ (مقدمہ فتح الباری) حافظ عبدالسلام حفظہ اللہ ”سیر اعلام النبلاء‘‘ کے حوالے سے ”فتح السلام بشرح صحیح البخاری الامام‘‘ میں لکھتے ہیں: غالب بن جبریل بیان کرتے ہیں کہ امام بخاری فوت ہوئے تو ان سے (جسم سے) اتنا پسینہ نکلا جو بیان سے باہر ہے اور کفن میں لپٹنے تک نکلتا رہا۔ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا”مومن ماتھے کے پسینے سے فوت ہوتا ہے‘‘۔ روح نکلتے وقت ماتھے پر پسینہ آ جاتا ہے۔ علماء اور محدثین کہتے ہیں کہ آخر وقت پر دین کے لیے کی ہوئی محنتوں کا رنگ پسینے کی صورت ظاہر ہوتا ہے اور ساتھ ہی اس (محنت)کا پھل مولا کریم جنت کی صورت میں دکھاتے ہیں۔ جی ہاں! امام بخاری کی محنتوں کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ اس کا صلہ یہ تھا کہ سارا جسم پسینہ بن گیا تھا۔ قارئین کرام! اب میں امام بخاری کی قبر مبارک کی طرف روانہ ہوا۔ امیر المومنین فی الحدیث کی قبر پر کھڑا ہوا۔ رب کریم کے حضور ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ قبر 256ھ میں جب بنی تو حافظ عبدالسلام اور مولانا عبدالستار حماد اپنی شرح ”ہدایۃ القاری‘‘ میں لکھتے ہیں کہ کئی دن تک قبر سے کستوری جیسی خوشبو آتی رہی۔ لوگ مٹی اٹھا اٹھا کر لے جانے لگے حتیٰ کہ قبر کا (اندرون) ظاہر ہونے لگ گیا۔ اب مجبوراً قبر کے گرد لکڑی کا جنگلا لگایا گیا۔ تھوڑے عرصے کے بعد ابو منصور غالب بن جبریل رحمہ اللہ بھی فوت ہو گئے۔ انہیں امام بخاری کے ساتھ قبر بنا کر دفن کیا گیا تو ان کی قبر سے بھی کئی دن تک خوشبو آتی رہی۔ اللہ اللہ! امام بخاری رحمہ اللہ کی زبان پر اذکار، جسم پسینے میں شرابور اور جس جگہ جسم مدفون ہوا وہاں کی مٹی سے کستوری کی خوشبو… لوگو! ذرا سوچو‘ اصل امام بخاری تو وہ تھے جن کو اس فانی جسم سے نکال کر ملک الموت ان کے رب کریم کے سامنے لے گئے تھے۔ وہاں ان کی عزت و تکریم کا کیا حال ہوگا؟ اصل امام بخاری کے پروٹوکول کا نظارہ کیا ہوگا؟

امام بخاری کو حکمران اور حاسد لوگوں نے ستایا تو انہوں نے خرتنگ میں اپنے اللہ سے عرض کی: مولا! تیری زمین فراخ ہونے کے باوجود مجھ پر تنگ ہو گئی، مجھے اپنے پاس بلا لے۔ جی ہاں! مولا کریم نے ان کی دعا قبول فرمائی اور انہیں بلا لیا۔ امام کا خرتنگ کہ جس کا معنی تنگی ہے‘ وہ تنگی ختم ہو گئی اور فردوس کی وسعت مل گئی۔ (ان شاء اللہ) مگر آہ! وہ لوگ جو اہلِ علم، اہل اللہ اور کمزوروں‘ ضعیفوں پر زندگی تنگ کرتے ہیں ان کے لیے اگلا خرتنگ بڑا خطرناک ہے۔ اگلے کسی کالم میں قبر کے ”ضمہ‘‘ یعنی تنگی پر کتاب و سنت کی روشنی میں لکھوں گا۔ (ان شاء اللہ) تب تک اللہ حافظ!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے