وزیراعظم تک ساری کہانی پہنچ گئی ،عثمان مرزا پولیس کو کیسے ڈیل کرتا تھا،سنسنی خیز انکشافات

اسلام آباد ویڈیو اسکینڈل کے کئی پہلو انتہائی خوفناک ہیں۔۔ لیکن سب سے خوفناک پہلو یہ ہے کہ مرکزی ملزم عثمان مرزا ایک عادی اور ریکارڈ یافتہ مجرم ہے۔ اس کے خلاف کیخلاف جڑواں شہروں میں سنگین نوعیت کے مقدمات درج ہیں،،،

راولپنڈی کے تھانہ چونترہ میں ایک جبکہ وارث خان میں دو مقدمات درج ہیں، اسلام آباد کے تھانہ سہالہ میں بھی اس کیخلاف بیلیک میلنگ اور دھمکیاں دینے کا مقدمہ درج ہے۔
ملزم کی ایک ٹک ٹاک ویڈیو بھی وائرل ہے جس میں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کسی کیس میں ضمانت ہونے پر خوشی کا اظہار کر رہا ہے۔

پولیس کے مطابق موجودہ کیس میں بھی وہ بلیک میل کر کے اب تک 13 لاکھ روپے وصول کر چکا ہے۔ جبکہ اس کے موبائل سے ایسے کم از کم 7 واقعات کا ثبوت ملتا ہے۔ مزید تفتیش جاری ہے۔

پولیس کے مطابق ملزم محمد عثمان مرزا ولد محمد ابرار I/8-3 اسلام آباد کا رہائشی ہے۔ پراپرٹی اور گاڑیوں کی خرید و فرخت کا کا کاروبار کرتا ہے . آئی ایٹ مرکز میں بٹ کڑاھی کے نام سے ہوٹل بھی چلا رہا ہے۔

اس نے میگنم ہایٹس ای الیون مرکز میں ایک فلیٹ بھی کرایے پر لے رکھا تھا جس کا مقصد عیاشی ہے۔ فلیٹ ہر ہفتے کی شام مختلف محفلیں سجائی جاتی تھیں. اور ان میں شرکت کرنے والی اسلام آباد کی ایلیٹ کلاس شریک ہوتی تھی۔ جس میں بہت سے با اثر افراد بھی شامل ہیں۔

اپنی دولت اور اثر و رسوخ کی وجہ سے بار بار گرفتار ہونے پر بھی فوری ضمانت پر رہا ہو جاتا۔ جبکہ بہت سی وارداتوں کی ایف آئی آر ہی درج نہ ہو پاتی۔ ملزم پولیس پر کھل کر پیسے لگاتا۔ تفتیش میں نقائص چھوڑے جاتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے وہ ضمانت پر رہا ہوتا رہا ہے۔

باہر نکل کر عثمان مرزا مدعیوں کو دھمکا کر کیس واپس لینے پر مجبور کرتا رہا ۔ اسی کی اسی وجہ شہرت کی بنا پر لوگ اس کے خلاف پولیس کی مدد لینے سے بھی ہچکچاتے تھے۔

پولیس کے ہی ایک ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ کیس میں بھی اُس نے معاملات تقریبا طے کر لیے تھے، دو روزہ ریمانڈ کے بعد ہی اُسے جوڈیشل کر دیا جاتا۔ اور مہینے بعد ضمانت ہو جاتی۔ لیکن وزیر اعظم عمران خان کے نوٹس اور کیس میں ذاتی دلچسبی لینے پر اس کا کھیل بگڑ گیا۔

اب بھی اسے قانون سے شکنجے سے بچانے کے لیے اس کا گینگ متحرک ہے۔ اس کے وکیل نے آج عدالت میں انتہائی ڈھٹائی سے کہا کہ کیس کو سوشل میڈیا کی ویڈیو سے نہیں پولیس ریکارڈ کے مطابق چلایا جائے۔ اُس کا کہنا تھا کہ ’’اُس کے موکل کے خلاف ایک لابی متحرک ہے جو چیزوں بلاوجہ کو اچھال رہی ہے۔‘‘

ایسے درجنوں درندے ہمارے معاشرے میں بکھرے پڑے ہیں، جن کے لیے قانون مکڑی کے جالے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ نہ تو ان کی ہر واردات ویڈیو پر ریکارڈ ہوتی ہے۔ نہ ہی ہر ویڈیو پر وزیر اعظم نوٹس اور ذاتی دلچسبی لیتا ہے۔

نوٹ : مندرجہ بالا مضمون میں دی گئی معلومات بلاگر کی اکٹھی کی گئی ہیں جو انہوں نے ٹویٹر پر اپنی ایک تھریڈ میں شائع کی ہیں . آئی بی سی اردو نے یہ بلاگ شہریوں کی دلچسبی اور معلومات کے پیش نظر شائع کیا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے