سراجِ منیر ہی پاکستان کی تعبیر!

اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب اور خلیلﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ”اے نبیؐ! بلاشبہ ہم نے آپ کو (پیغامِ رسالت) کا گواہ بنا کر بھیجا۔ خوشخبری دینے والا اور انتباہ کرنے والا بنا کر مبعوث فرمایا۔ مولا کی مرضی سے اللہ کی طرف بلانے والا بنا کر بھیجا اور سراج منیر (روشن آفتاب) بنا کر بھیجا‘‘۔ (الاحزاب:45 تا 46) قارئین کرام! مندرجہ بالا پیغام جس سورہ مبارکہ میں ہے‘ اس کا نام ”احزاب‘‘ ہے۔ یہ ”حِزْب‘‘ کی جمع ہے جس کا معنی جماعت، جتھہ اور لشکر ہے۔ جب پورے عرب کے لشکروں‘ جن میں مشرک تو تھے ہی، منافقین بھی تھے، یہود بھی تھے، نصاریٰ بھی کسی حد تک موجود تھے‘ نے مل کر مدینہ منورہ کا محاصرہ کر لیا تھا‘ ان کی تعداد دس ہزار تھی جبکہ مسلمان صرف ایک ہزار تھے۔ انتہائی کم وسائل تھے، بھوک سے نڈھال تھے اور خندق کھود کر دفاعی پوزیشن میں تھے‘ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے کولیشن فورسز یا یونائیٹڈ فورسز کو بھگا ڈالا اور اپنے پیارے محبوبﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو کامیابی سے نوازا۔ یوں ہمارے حضور کریمﷺ عرب کی سر زمین پر سراجِ منیر بن کر چمکے۔ عرب کے تمام دیے اور چراغ بجھتے چلے گئے اور آفتابِ منیر کا نور سارے عرب کو نور دیتا چلا گیا۔ یہ نور پیغامِ رسالت تھا۔ مدینہ کی ریاست میں اس کا عملی نفاذ ہوتا چلا گیا۔ مدینہ اس نور سے روشن ہوتا ہوتا اس قدر منور ہو گیا کہ مدینہ کے نام کے ساتھ ”منورہ‘‘ کا لاحقہ اپنی کامل ترین صورت میں لاحق ہو کر جگمگایا اور عملی ماڈل بن کر جب جگمگایا تو خلافت راشدہ کے زمانے میں اس دور کی معلوم دنیا پر ہر جگہ جگمگ نظارے نظر آنے لگے۔

سائنسی دنیا کی یہ حقیقت ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اکثر سائنسی نظریات یا تھیوریز پیشگوئیاں ہوتی ہیں‘ بہت ساری پیشگوئیاں ایسی ہوتی ہیں جو لیبارٹریوں میں ٹیسٹ نہیں ہو سکتیں، خوردبینوں اور دوربینوں کے ذریعے مشاہدے میں نہیں آ سکتیں مثال کے طور پر ستاروں یا سورجوں کی جو چمک اور روشنی ہے‘ اس روشنی کو تو ہم دیکھتے ہیں مگر یہ روشنی فوٹون کی وجہ سے ہے، فوٹون ذرے کی صورت میں بھی ہے اور لہر (Wave)کی صورت میں بھی‘ اس کو دیکھنا نا ممکن ہے۔ اب پیشگوئی یہ ہے کہ یہ فوٹون ہمارے سورج کے انتہائی دور اور گہرے ترین مقام سے نمودار ہوتا ہے۔ وہ ہمارے پاس ہوتا ہے مگر ہم اسے ٹیسٹ نہیں کر سکتے، اسے چھو نہیں سکتے، اسے پکڑ کر سکتے حالانکہ یہ فوٹون دکھائی دینے والی کائنات کا ایک مادی ذرہ ہے۔ وہ مادی ہو کر بھی اس قدر لطیف ہے کہ اس کی غیبی حالت کو ماننا پڑتا ہے۔ یہ روشنی کی رفتار سے حرکت کرتا ہے، روشنی کی رفتار 3 لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ ہے۔ اس کے سرے کے ماورا (Beyond) فوٹون باقی رہتا ہے مگر ہماری رسائی اور پہنچ میں نہیں آ سکتا۔ اب یہ سائنسی نظریہ یا تھیوری ہونے کے باوجود سائنسی طور پر تسلیم کی گئی حقیقت ہے جسے Established Scientific Theory کہا جاتا ہے۔ سائنسی زبان میں اسے Untestable نظریہ کہا جاتا ہے۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ ہمارا ایمان اور اعتقاد فوٹون کی موجودگی کو تسلیم کرتا ہے۔ ایک سائنسدان‘ جو فوٹون کے وجود پر ایمان رکھتا ہے‘ وہ نظریے کی وجہ سے ہی ایمان رکھتا ہے۔

ہم جس زمین پر آباد ہیں اور سورج کی روشنی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں یہ زمین کے گرد نصف سیکنڈ میں سات چکر لگا سکتی ہے۔ سوا سیکنڈ میں چاند اور زمین کے درمیان کی مسافت طے کر لیتی ہے یعنی اگر ہم انسان فوٹون کے سرے پر بیٹھ جانے کے قابل ہو جائیں تو ہم محض تین سیکنڈ میں مریخ پر چلے جائیں گے اور وہاں من مرضی کا وقت گزار کر اگلے تین سیکنڈ میں واپس زمین پر ہوں گے۔ یہ حقیقت ذہن میں رہے کہ روشنی کا ہر فوٹون جو سورج کی گہرائیوں سے نکلتا ہے‘ ساڑھے آٹھ سیکنڈ میں زمین پر پہنچتا ہے۔ اگر سورج غائب ہو جائے تو ہمیں ساڑھے آٹھ سیکنڈ کے بعد پتا چلے گا کہ سورج کا وجود اس کے خالق نے ختم کر دیا ہے۔

کائنات میں کھربوں کہکشائیں ہیں‘ ہر دو کہکشائوں کا درمیانی فاصلہ کھربوں نوری سالوں پر مشتمل ہے۔ ایک کہکشاں (Galaxy) ہماری ملکی وے گلیکسی سے دس ارب نوری سال دور ہے۔ اگر یہ ختم ہو جائے‘ اپنا وجود کھو بیٹھے تو ہمیں دس ارب سال بعد پتاچلے گا کہ وہ مر گئی ہے۔ جیسے ایک ڈیڑھ صدی پہلے خط ملتا تھا تو اس کی تاریخ پڑھ کر پتا چلتا تھا کہ جس بندے کے مرنے کی اطلاع دی گئی ہے اسے مرے ہوئے ایک ماہ ہو چکا ہے۔

حضور کریمﷺ کا پیغامِ رسالت یعنی قرآنِ مجید بھی نور ہے، حدیث شریف بھی نور ہے، سنت مبارکہ بھی نور ہے اور حضور کریمﷺ کی مبارک سیرت بھی نور ہے۔ ہم نے پاکستان بنایا تو اعلان کیا کہ ”پاکستان کا مطلب کیا… لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ خوبصورت اور حسین ترین اتفاق ملاحظہ ہو کہ علامہ اقبالؒ‘ جنہوں نے پاکستان کا تصور پیش کیا ان کا نام ”محمد اقبال‘‘ تھا۔ جس ہستی نے پاکستان کے خواب کو عملی تعبیر میں ڈھالا‘ ان کا نام ”محمد علی جناح‘‘ تھا۔ یعنی دونوں کے نام حضور کریمﷺ کے مبارک نام پر رکھے گئے تھے۔ دونوں ہی اسلام کے علمبردار تھے۔ دونوں ہی نظریہ پاکستان کے علمبردار تھے اور وہ نظریہ کلمہ طیبہ ہے۔ مدینہ منورہ کا نام طیبہ اور طابہ بھی ہے۔ اس کا معنی اردو میں پاک ہے اور پاک کا معنی طیبہ ہے۔ اسی سے پاکستان ہے یعنی پاکستان کے نام کی نسبت بھی حضور کریمﷺ کے شہر سے ہے۔ یہ نسبت بھی نظریاتی ہے۔

سورۃ الاحزاب کی جس آیت کے ترجمے سے ہم نے کالم کا آغاز کیا‘ اس میں حضور کریمﷺ کی پہلی صفت ”شاہد‘‘ ہے یعنی آپﷺ کی گواہی محفوظ قرآنِ مجید کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ حدیث شریف ”جرح و تعدیل‘‘ اور ”علم الرجال‘‘ کے میزان میں صحیح ترین صورت میں ہمارے پاس موجود ہے اور جو صحیح ترین حدیث شریف کی کتاب ہے‘ اس کتاب یعنی صحیح بخاری کو جمع کرنے والے کا نام بھی ”محمد بن اسماعیلؒ‘‘ ہے۔ یعنی کامل ترین اور اصلی صورت میں صحیح ترین ضابطۂ حیات ہمارے پاس موجود ہے۔ حضورﷺ کا دوسرا صفاتی نام ”مبشر‘‘ ہے یعنی اسلامی نور سے ملک جگمگائے گا تو ساری دنیا کے دشمنوں سے اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے گا، اس نور کو اپنانے والے کو آخرت میں فردوس ملے گی۔

حضورﷺ کا تیسرا صفاتی نام ” نذیر‘‘ ہے یعنی حضورﷺ کے عطا کردہ اسلامی نور سے پیچھے ہٹو گے تو دنیا میں بھی ذلت ملے گی اور اگلے جہان میں بھی بدعہدی کی سزا رسوا کن ہوگی۔ حضورﷺ کا چوتھا صفاتی اسم گرامی ”داعی الیٰ اللہ‘‘ ہے چنانچہ سٹیٹ کے حکمران کا فرض ہے کہ ہر محکمے کی اصلاحات اور ضوابط میں اللہ کے حضور پیشی کا یقین رکھا جائے۔ پانچواں صفاتی نام گرامی ”سراجِ منیر‘‘ ہے۔ یاد رہے! جو اللہ کے داعی ہیں وہی اللہ کے سراجِ منیر ہیں۔ دنیا کا سورج چڑھتا بھی ہے‘ غروب بھی ہوتا ہے۔ حضور کریمﷺ ایسے سراجِ منیر ہیں کہ ان کی دی ہوئی شریعت کا نور قیامت تک چمکے گا، یہ نور قبر میں بھی کام آئے گا، یہ نور حشر کے دن بھی جگمگائے گا۔ حوضِ کوثر،مقام شفاعت، پل صراط اور جنت میں داخل ہونے کے وقت بھی یہ نور ساتھ ساتھ رہے گا۔ ختم نبوت کے آفتاب کا یہ ایسا ربانی نور ہے جس کے لیے کوئی غروب نہیں ہے‘ فقط طلوع ہی طلوع ہے‘ اشراق ہی اشراق ہے۔ ہاں! امت جب غروب ہو گی تو اس نور کو ترک کر کے غروب ہو گی۔ اس کا طلوع و اشراق ہو گا تو اسی نور میں داخل ہو کر ہوگا۔

میرے بڑے بیٹے کے سسرال میں ایک بزرگ ہیں‘ محمد یوسف ان کا نام ہے۔ ان کی عمر 90 اور 95 سال کے درمیان ہوگی۔ مجھے بتایا کہ ان کی تازہ تازہ شادی ہوئی تھی‘ بیوی میکے گئی تو ہجرت کرنا پڑ گئی۔ خاندان کے 43 بندے ایک بس میں سوار ہوئے۔ راستے میں ہندو اور سکھو بلوائیوں نے بس کے تمام مسافر تلواروں، کلہاڑیوں اور برچھوں سے شہید کر دیے‘ صرف ایک فرد ہی زندہ بچ سکا۔ یوں خون کا سمندر عبور کر کے ہمارے اسلاف نے پاکستان بنایا۔ یاد رہے! جمہوریت پُرامن انتقالِ اقتدار کا نام ہے‘ اسی راستے سے ہمیں پاکستان ملا۔ اس میں تشدد شامل ہوا تو ہندوتوا کے حامل ہندوئوں کی تنگ، متعصبانہ اور ظالمانہ سوچ سے ہوا‘ اس میں جمہوریت کا قصور کیا ہے؟ ہاں! اسے بہتر سے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اب پاکستان میں ہم سب مسلمان ہیں۔ غالب اکثریت میں ہیں، لہٰذا یہاں تشدد کا کوئی جواز نہیں۔ نظام کو بہتر سے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ کا بھی دیا ہوا ایک ماڈل ہے جس پر جماعت اسلامی ثابت قدمی کے ساتھ جمی ہوئی ہے۔ ایسا ہی ماڈل چاہے کچھ مزید بہتر ترامیم سے ہو‘ ملک کے اندر اختیار کیا جا سکتا ہے۔ سب کی رائے اور تجاویز کے ساتھ ہر سیاسی جماعت کے اندر بھی نظام ہونا چاہیے۔ حضرت علامہ محمد اقبالؒ اور حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ اسی راستے کو درست سمجھتے تھے۔ انہیں موقع نہ مل سکا مگر ہم نے پون صدی ضائع کر دی اور اپنے معاشرے کو خواہشات سے نہ نکال سکے۔ اب بھی موقع ہے کہ مفاداتی خواہشات کو ذبح کر کے عادلانہ اصولوں پر اپنے ملک اور عوام کو لے کر آگے بڑھیں۔

محترم جنرل حمید گل بتایا کرتے تھے کہ حضرت قائداعظمؒ نے ایک بار فرمایا تھا کہ جب میں اللہ کے حضور پیش ہوں گا‘ اللہ تعالیٰ مجھ سے پوچھیں گے: بتا اے محمد علی! دنیا میں زندگی دی تھی کیا کر کے آئے ہو؟ میں عرض کروں گا: مولا کریم! پاکستان بنا کر آیا ہوں۔ مولا کریم (ان شاء اللہ) فرمائیں گے: Well done Muhammad Ali۔ اے 22 کروڑ پاکستانیو! خاص طور پر ذمہ دار حکمرانو! آئیں، 14 اگست کی صبح پاکستان کو توپوں کے گولوں سے سلامیاں دینے اور چبوتروں پر چڑھنے سے قبل‘ تہجد کے وقت اللہ تعالیٰ کا سامنا کرتے ہوئے تشہد میں بیٹھیں اور سوچیں کہ ہم کیا جواب دیں گے؟

بشکریہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے