حکومت کی علماء کرام سے مشاورت کا دن

اللہ تعالیٰ کے آخری رسول حضرت محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوموار کے دن اس دنیا میں تشریف لائے۔ سوموار اور جمعرات کا نفلی روزہ حضور نبی کریمﷺ کی سنت ہے۔ آپﷺ نے علماء کرام کو انبیاء کرام علیہم السلام کا وارث قرار دیا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے قابل تعریف کام کیا کہ چند دینی مسائل پر علماء کرام سے مشاورت اور رہنمائی کا فیصلہ کیا۔ 27 ستمبر کو وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان کراچی میں علماء کرام کی مجلس میں محوِ گفتگو تھے تو اسی روز ” وزیر اعظم آفس اسلام آباد ‘‘ میں علماء کرام کی ایک مجلس آراستہ کی گئی۔ اس مجلس کی صدارت جناب اعجاز احمد چودھری کے ذمہ تھی۔

ان کا پی ٹی آئی سے تعلق 2007ء میں قائم ہوا۔وہ انجینئر ہیں اور دینی لحاظ سے کتاب و سنت کا اچھا خاصا مطالعہ بھی رکھتے ہیں؛ چنانچہ تمام دینی مکاتبِ فکر میں ان کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یوں سمجھنا چاہیے کہ تحریک انصاف کی حکومت علماء کرام سے رابطے اور رہنمائی کے لیے اعجاز احمد چودھری کی رہنمائی سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ چودھری صاحب اپنی جماعت کی کور کمیٹی کے ممبر ہیں‘ پنجاب کے صدر بھی ہیں‘ سینیٹر بھی ہیں اور تمام مکاتبِ فکر کے لیے بنائے گئے امن پروگرام اور ملک بھر کی امن کمیٹیوں کے سرپرست بھی ہیں جبکہ چیئر مین جناب محمود غزنوی ہیں۔ اسلام آباد کے اجلاس میں راقم بھی مدعو تھا۔ علماء کرام میں جناب ابتسام الٰہی ظہیر ، مولانا راغب نعیمی، مولانا محمد حسین اکبر، حافظ زبیر احمد ظہیر، قاری محمد یعقوب شیخ، مولانا فہیم الحسن تھانوی، حافظ عبدالغفار روپڑی، ڈاکٹر عبدالغفور راشد اور دیگر بہت ساری شخصیات موجود تھیں۔ موضوعِ سخن میں سرفہرست بات یہ تھی کہ قبولِ اسلام میں عمر کی حد کے بارے میں علماء کرام کیا فرماتے ہیں کیونکہ سندھ حکومت ایک بل لاچکی ہے کہ قبولِ اسلام کے لیے عمر کی حد اٹھارہ سال ہونی چاہیے اور اب یہی بات قومی اسمبلی کے ایوان میں بھی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اچھا کیا کہ اس موضوع پر علماء کرام کی رہنمائی طلب کرڈالی۔

اس سیمینار‘ جس میں ایک سو کے قریب ملک بھر سے ممتاز اور جید علماء کرام موجود تھے‘ ملک کی دیگر اہم شخصیات بھی تھیں۔ محترمہ شیریں مزاری‘ جو حقوقِ انسانی وزارت کی وفاقی وزیر ہیں‘ کی وزارت کے اہم لوگ بھی یہاں موجود تھے۔ سیمینار‘ جو مشاورتی رنگ اپنائے ہوئے تھا‘ کا انعقاد بھی مذکورہ وزارت نے ہی کیا تھا۔ میں نے مذکورہ سیمینار میں اپنی باری پر اس حقیقت کو واضح کیا کہ ”سیرت ابن اسحاق‘‘ سیرت کی اولین کتب میں سے ہے۔ معتبر بھی ہے۔ وہ آگاہ کرتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اہلیہ محترمہ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کے ہمراہ رات یعنی عشاء کی نماز پڑھ رہے تھے۔ حضرت علیؓ جو حضورﷺ کی کفالت میں تھے‘ نے عبادت کا یہ طریقہ دیکھا تو پوچھا کہ یہ عبادت کیسی ہے؟ حضورنبی کریمﷺ نے بتایا کہ یہ اس دین کی عبادت کا طریقہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے پسند فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ طریقہ اپنے رسول کو بتایا ہے۔ اب حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علیؓ کو اپنی رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی اور فرمایا کہ ایک اللہ پر ایمان لائو اور مجھے اللہ تعالیٰ کا رسول ماننے کا اظہار کرو۔ حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ مجھے اپنے والد گرامی سے مشورہ کرنے کے لیے وقت چاہیے۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علیؓ کو محض اس وجہ سے کہ اس سے اسلام کی دعوت کا اظہار ہوجائے گا‘ اجازت نہیں دی۔فرمایا:یہ کام مجھے کرنا ہے لہٰذا آپ یا تو اسلام قبول کرلیں، ایسا نہیں تو اس بات کواپنے دل میں ہی رہنے دیں۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رات غوروفکر میں گزاری‘ حتیٰ کہ میرے سینے میں ایمان نے اپنا گھر بنا لیا۔ صبح ہوئی تو حضور کریمﷺ سے عرض گزار ہوا کہ ذرا مجھے دوبارہ اپنی دعوت سے آگاہ فرما دیجیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ آگاہ فرمایا، توحید و رسالت کے بارے بتایا تو میں نے کلمہ پڑھ لیا مگر اپنے باپ کے خوف سے اپنے ایمان کو چھپا لیا۔

قارئین کرام! حضرت علیؓ کے الفاظ اس طرح ہیں ”خشیۃ من ابی طالب‘‘ میں اور مولانا محمد حسین اکبر سٹیج پر اکٹھے بیٹھے تھے۔ میں نے مولانا سے کہاکہ میرے تجزیے کے مطابق تب حضرت علیؓ کی عمر 10 برس تھی۔ انہوں نے کہا کہ میرے خیال کے مطابق بھی بارہ یا دس سال بنتی ہے۔ میں نے گھر آکر تحقیق کی تو محققینِ سیرت 8اور 9 سال بتاتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے اپنے ایمان کو حضور نبی کریمﷺ کے حکم اور اپنے باپ کے ڈر سے چھپایا تھا۔ جی ہاں! میں نے ڈائس پر آکر تحریک انصاف کی حکومت کو مشورہ دیا کہ اسلام کی قبولیت کا آغاز نو یا دس سال کے بچے سے ہوا ہے لہٰذا 18 سال کی عمر کا تعین ابتدائے اسلام کی حقیقت سے انحراف ہے۔ قارئین کرام! ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ سیکولر دنیا میں اس عمر کے بچے کوملحد بننے کی آزادی ہے‘ وہ جوچاہے مذہب اختیار کر سکتا ہے‘ ماں باپ ایک طمانچہ مار دیں تو پولیس کو طلب کر سکتا ہے‘ جنسی بے راہ روی اختیار کر سکتا ہے۔ حیرت ہے کہ پاکستان جیسا ملک کہ جو ”لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کے کلمے کی بنیاد پر بنا‘ وہاں اٹھارہ سال سے کم عمر کوئی غیر مسلم بچہ کلمہ نہ پڑھ سکے۔ یہ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کے وژن کے بالکل خلاف ہے کہ انہوں نے وطن عزیز کو ریاستِ مدینہ بنانے کا اعلان کر رکھا ہے۔

مشاورت کا دوسرا نکتہ معصوم بچوں کا ریپ اور قتل تھا۔ ہمارا معاشرہ اس قدر پست ہوچکا ہے کہ تین سال کی بچی بھی ریپ اور قتل کی بھینٹ چڑھ گئی۔ امام مسلم رحمہ اللہ اپنی ”صحیح مسلم‘‘ میں ایک واقعہ لائے جو ریاست مدینہ میں ہونے والے ایک جرم سے متعلق ہے۔ ایک لڑکی کو ویرانے میں ایک یہودی نے دیکھا۔ لڑکی مسلمان تھی اور یہودی مجرمانہ ذہنیت کا حامل تھا۔ لڑکی نے زیور زیبِ تن کر رکھا تھا۔ اس نے لڑکی کے سر میں پتھر مار‘ سر کچل کر رکھ دیا اور اس کے سارے زیور اتار لیے۔ زخموں سے چور بچی کو کنویں میں پھینک دیا جس میں پانی نہ تھا۔ دو راہ گیروں نے ایک آواز سنی جس میں درد تھا‘ کراہنے کی آواز تھی تو وہ آواز کی سمت گئے اور دیکھا کہ کنویں میں لڑکی تھی۔ دونوں نے اسے نکالا اور سرکار مدینہﷺ کی خدمت میں لے آئے۔ لڑکی اس وقت زندہ تھی‘ اس کے سامنے مجرمانہ ذہنیت کے حامل تین لوگوں کا نام لیا گیا۔ تیسرے پر اس نے ہلکا سا سر کا اشارہ کرکے مثبت جواب دیا۔ ملزم گرفتار ہوگیا۔ اس نے اعترافِ جرم بھی کرلیا اور پھر ریاستِ مدینہ کے حکمران سرکار مدینہﷺ نے فیصلہ دیا اور مجرم کو سر عام دو پتھروں کے درمیان اس طرح رکھا گیا کہ اس کا سر کچل دیا گیا۔ اس کے بعد مدینہ منورہ میں ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا۔ مدینہ منورہ کی وہ ریاست‘ جس کے حکمران اللہ تعالیٰ کے آخری رسول تھے‘ اس ریاست کا نمونہ یہ تھا کہ جرم اور مجرموں کی تشہیر نہ کی جائے۔اس سے معاشرے میں خوف اور دہشت پیدا ہوتی ہے۔ تشہیر اس وقت کی جائے جب عدالتی فیصلے کے بعد مجرم کو سزا دینا مقصود ہو۔ تب معاشرہ سکھ کا سانس لے گا کہ اچھا جی! ایک جرم ہوا‘ چند دنوں یا ہفتوں میں عدل کا فیصلہ سامنے آگیا‘ مجرم کو سزا مل گئی اور سزا بھی سرِ عام مل گئی۔ معاشرہ پُر سکون اور مطمئن ہوجائے گا۔ مجرمانہ ذہنیت کے حامل لوگوں کے لیے عبرت کا سامان بن جائے گا کہ اگر جرم کیا تو کیفرِ کردار تک پہنچنے کے ساتھ ساتھ ذلت کا سامان بھی مہیا ہوجائے گا، لہٰذا جرم کا سوچتے وقت ہر مجرم خوف سے کانپنے لگے گا، تب امن پسند اور معصوم شہری بے خوف زندگی گزاریں گے۔ یہاں پر محترم وزیر اعظم پاکستان کی خدمت میں تجویز یہ ہے کہ جنرل محمد ضیاء الحق نے جس طرح پپو زیادتی و قتل کیس میں چار مجرموں کو سرِ عام پھانسی دی تھی‘ ان چاروں لاشوں کو راقم نے آدھا گھنٹہ تک کیمپ جیل کے باہرلٹکتے دیکھا تھا‘ اس کے بعد ایک سال تک پاکستان میں ایسا کوئی جرم نہیں ہوا تھا‘ اس طرح قومی اسمبلی میں سرعام پھانسی کا بل پیش کرکے قانون بنا دیاجائے تو تین‘ تین سال کی بچی کے ساتھ ہونے والے گھنائونے جرائم اپنی موت آپ مر جائیں گے۔

آخری گزارش یہ ہے کہ مذکورہ بل کی جو لوگ حمایت نہیں کریں گے‘ وہ بھی معاشرے میں بے نقاب ہوجائیں گے۔ مہنگائی تو برداشت ہو رہی ہے مگر لوگوں کے معصوم بچے غیر محفوظ ہوں‘ یہ برداشت نہیں۔ یقین جانیے! جب جنرل ضیاء الحق نے 4 مجرموں کو سر عام سزا دی تھی‘ ان کی مقبولیت پاکستان کی سرزمین پر غیر معمولی تھی‘ ان شاء اللہ‘ اللہ کے ہاں بھی ہو گی۔ وزیراعظم عمران خان صاحب اگر ایسا کر گئے تو پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا ایک وعدہ اس انداز سے سامنے آئے گا کہ اگلے الیکشن میں سینہ تان کر کہہ سکیں گے کہ میں نے ریاست مدینہ کی عمارت کا پہلا پتھر رکھ دیاہے‘ اگلے پانچ سالوں میں اس کی تعمیرہوگی، ان شاء اللہ!

بشکریہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے