ملکہ ترنم نورجہاں کو مداحوں سے بچھڑے 15برس بیت گئے

ماہ دسمبرشوبزانڈسٹری کی شخصیات کے لئے اکثربھاری ثابت ہوا ہے، کئی معروف فنکاراس مہینے میں ہم سے بچھڑ گئے ۔ چند دن پہلے 17 دسمبر کو لیجنڈ اداکار، رائٹر کمال احمد رضوی داغ مفارقت دے گئے۔ اسی طرح گلوکارہ کوثر پروین ،استاد دامن اور اداکار ساقی بھی اسی ماہ جدا ہوئے اور موسیقی کی سلطنت اورکروڑوں سامعین کے دل ودماغ پرحکمرانی کرنے والی ملکہ ترنم نور جہاں کو مداحوں سے بچھڑے 15برس بیت گئے۔

موسیقی کی دنیا کا ذکرسروں کی ملکہ نورجہاں کے بغیر مکمل نہیں ہوتا،گیت ہو یا غزل میڈم کی آواز کانوں میں رس گھولتی ہے،میڈم نور جہاں کی صلاحیتوں کا اعتراف صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھرمیں موسیقی کے قدردان کرتے ہیں، کئی گلوکاروں نے ان کی نقل کی ، کوئی ان کے نقش قدم پرچلنے کی کوشش کرتا رہا، کسی نے ان کے گلدستے سے چند پھول چننے کی کوشش کی مگر کوئی نورجہاں ثانی نہ بن سکا۔
اللہ وسائی کے نام سے 21 ستمبر 1926 کو پیدا ہونے والی نورجہاں نے 9 سال کی عمرمیں چائلڈ گلوکارہ کے طورپر گانا

شروع کیا۔ بے شمار کامیاب فنکاروں کو پس پردہ آوازکے ذریعے کامیاب بنانے میں اہم کردارادا کرنے والی عظیم گلوکارہ نے اپنا فلمی کیریئر1930 میں خاموش اداکاری والی فلم ’’حنا کے ترسے‘‘ سے شروع کیا جبکہ فلمی ہیروئن کے طورپران کے کیرئیرکا آغاز 1942ء میں ’’خاندان‘‘ فلم سے شروع ہوا۔اس فلم کیلئے غلام حیدر کے کمپوزکئے ہوئے تمام گانے سپرہٹ ہوئے اوراس دورکے مقبول ترین گانوں میں شمارہوئے۔ اس طرح نورجہاں کیرئیرکے آغاز میں ہی گلوکارہ اوراداکارہ کے طورپرمشہورومقبول ہو گئیں۔
madam 1

نور جہاں نے ممبئی میں کئی بھارتی فلموں نادان، نوکر، لال حویلی، دل، ہمجولی اور جگنو وغیرہ میں کام کیا۔ بعد ازاں قیام پاکستان کے بعد 1947 میں وہ لاہور منتقل ہو گئیں جہاں پرانہوں نے اداکاری اورگلوکاری کا سلسلہ جاری رکھا۔ نور جہاں نے دوپٹہ، گلنار، انتظار، لخت جگر، کوئل اور انار کلی میں کام کیا۔ بعد ازاں نور جہاں نے 1960 سے 1970 کے عشرے میں پنجابی فلموں کیلئے گانے گائے جو کہ سپرہٹ ہوئے۔ انہوں نے ایک ہزار فلموں کیلئے گیت گائے جن میں سے زیادہ تر مقبول عام ہوئے۔ ملکہ ترنم نور جہاں کے دل میں پاکستان کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور انہوں نے 1965ء کی جنگ میں اپنی آواز میں رضا کارانہ طور پر کئی ترانے گائے جو کہ بڑے مقبول ہوئے اور ان ترانوں سے پاکستانی فوج اورعوام کا حوصلہ بلند ہوا۔

 

ملکہ ترنم نور جہاں نے اپنا آخری نغمہ 1996 میں ریکارڈ کرایا جس کے بعد خرابی صحت کی بناء پر ا نہوں نے گلوکاری ترک کردی اور23 دسمبر 2000ء کو انتقال کرگئیں۔ نصف صدی سے زائد عرصہ تک موسیقی کی سلطنت اورکروڑوں سامعین کے دل ودماغ پرحکمرانی کرنے والی ملکہ ترنم نورجہاں کے حوالے سے عظیم اداکار دلیپ کمار نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ نورجہاں نے ’’پلے بیک سنگنگ‘‘ میں جو اُسلوب اورانداز وضع کیا وہ فلمی موسیقی کالازمی جُزبن گیا ۔ اصل میں نورجہاں کی آواز نے فلمی موسیقی کو وہ جمالیات بخش دئیے تھے اور اس کی وجہ سے یہ آج تک سجی ہوئی ہے۔ دلیپ کمار نے کہا دنیا میں فلم اور میوزک ریکارڈنگ کی ایجادات کو متعارف ہوئے ابھی تھوڑا عرصہ ہوا تھا اس لئے اس تکنیک کو سیکھنے کے لئے نہ تو انسٹی ٹیوشنز تھے اور نہ ہی فنکاروں کی کوئی ٹریننگ تھی۔

 

 

حیرت انگیزامر ہے کہ نورجہاں اور ان کے دوسرے ساتھیوں نے جو کام کیا وہی ان انسٹی ٹیوشینز کی بنیاد اورسلیبس بنا۔ لتا منگیشکر نے بھی اسی طرح ملکہ ترنم نورجہاں کو ٹریبوٹ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ سبھی لوگ جانتے ہیں کہ میں نے انہیں ہمیشہ ’’نورجہاں دیدی ‘‘ کہاہے ، وہ سچ مچ میری بڑی بہن تھیں انہیں بڑی فنکارہ بھی تسلیم کرتی ہوں ۔ وہ اپنی تمام عمرسُرمیں گائیں ان کا سب سے بڑا کریڈٹ یہ ہے کہ انہوں نے ’’پلے بیک موسیقی‘‘ کو وہ انداز بخشا جسے گذشتہ 60 سالوں سے نقل کیا جارہا ہے ۔ لتا منگیشکر نے کہا کہ مُجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جہاں برصغیر کی فلم اور سنیما نے بہت ترقی کی ہے وہاں موسیقی کے شعبے میں زوال اور عامیانہ پن کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کیا گیا ۔ لتا منگیشکر نے کہا کہ میں نے نورجہاں کے انداز کو بنیاد بنا کر اپنا ایک اسلوب وضع کیا جسے چاہنے والوں نے بہت سراہا ، دنیامیں جو آتا ہے اسے ایک نہ ایک دن تو واپس جانا ہوتا ہے مگر نورجہاں جیسے دنیا میں آئیں انہوں نے کروڑوں لوگوں کے دل جیتے اور بھرپور زندگی گزار کر اوپر والے کے پاس گئیں یہ بہت کم انسانوں کو نصیب ہوتا ہے۔

 

 

ملکہ ترنم نورجہاں کی برسی کے حوالے سے گلوکارہ شاہدہ منی نے کہا کہ نورجہاں کی جدائی ایک گہرا گھاؤ ہے جو کبھی نہیں بھر پائے گا۔ رواں صدی میں ان جیسی فنکارہ کا آنا ممکن نہیں۔ ان کی گنڈا بندھ شاگرد گلوکارہ ترنم ناز نے کہا کہ وہ اپنے نام اورکام کی طرح انسان بھی بہت بڑی تھیں جو ہمیشہ نئے آنے والوں سے شفقت کرنے کے ساتھ ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتی تھیں ان کی وفات سے فلمی موسیقی یتیم ہوگئی ہے اورآج تک کوئی دوسری سنگران کا خلا پر نہیں کرسکی۔

madam 2

میوزک ڈائریکٹر ذوالفقارعطرے نے کہا کہ نورجہاں ایک لاجواب شخصیت تھی جو صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں‘ اگر کوئی گائیکی میں اپنا مقام بنانا چاہتا ہے تو وہ میڈم نورجہاں کی شخصیت کو سامنے رکھ کر چلے جس نے موسیقی کو باقاعدہ سیکھا ہے۔گلوکارہ سائرہ نسیم نے کہا کہ وہ موسیقی کی ایک مکمل درس گاہ تھیں‘جنہیں فلمی ‘ غیر فلمی ‘ غزل سمیت ہر انداز کے گانے پر مکمل عبور حاصل تھا‘اگر اس نے غزل گائیکی تو کمال کردیا ‘اس کی وفات موسیقی ایک حقیقی ملکہ سے محروم ہوکر رہ گئی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے