پروفیسر خورشید احمد : ایک عہد ساز شخصیت

آہ …..انا للّٰہ وانا الیہ راجعون

علم و دانش اور دین و ایمان کا کوہ گراں، مشرق و مغرب کے نظریاتی دھاروں کا خوشہ چیں، الحاد کے دور میں الہام کا علمبردار، مایہ ناز ماہر تعلیم و معیشت، سابق سینیٹر اور نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ کے قریبی ساتھی پروفیسر خورشید احمد ایک قابل رشک زندگی گزار کر اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے۔

اجالوں کا سفر طے کرنے والا ایک روشن ستاره، علم و دانش کا آفتاب، فکر و عمل کا پیکر، پروفیسر خورشید احمد صاحب نے 93 برس کی تابناک زندگی گزار کر 13 اپریل 2025 کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کی رحلت محض ایک فرد کا انتقال نہیں، بلکہ ایک پورے عہد کا اختتام ہے، جو کہ ایمان و الہام، علم و سیاست، تحقیق و تربیت، اور فکر و عمل کے دھاروں کو روشن کر گیا۔

مرحوم کا علمی اور فکری مقام

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ کے علمی اور فکری وارث پروفیسر خورشید احمد صاحب کی شخصیت کسی ایک دائرے میں سمٹنے والی نہ تھی۔ وہ ایک استاذ بھی تھے، ایک محقق بھی، ایک ادیب بھی، ایک ماہرِ اقتصادیات بھی، ایک مربی بھی اور ایک زیرک سیاست دان بھی۔ ان کی زندگی کا ہر پہلو گہرائی اور گیرائی سے معمور تھا۔ 23 مارچ 1932 کو دہلی میں آنکھ کھولنے والے اس عظیم ہستی نے قانون، اقتصادیات اور اسلامیات میں مہارت حاصل کی، جبکہ دنیا بھر کی جامعات نے ان کی علمی خدمات کے اعتراف میں انہیں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگریوں سے نوازا۔

تحریکی اور تعلیمی خدمات

ان کا سفرِ علم و عمل 1949 میں اسلامی جمعیت طلبہ کی رکنیت سے شروع ہوا اور 1953 میں وہ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ بن گئے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد 1956 کو جماعت اسلامی میں شمولیت نے ان کے فکری اور عملی سفر کو ایک نئی جہت دی۔ وہ کراچی یونیورسٹی، لیسٹر یونیورسٹی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد اور شاہ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ جیسے معتبر اداروں سے وابستہ رہے، جہاں انہوں نے نہ صرف بڑے پیمانے پر طلبہ کو علم و فضل سے روشناس کیا بلکہ اسلامی معاشیات کو ایک مستقل علمی شعبے کے طور پر جدید دنیا میں متعارف کرایا۔

قلم و کتاب سے والہانہ لگاؤ

پروفیسر خورشید احمد کی زندگی کا ایک نمایاں پہلو کتابوں سے گہرا عشق تھا۔ طالب علمی کے دور سے ہی انہوں نے ایک شاندار لائبریری تشکیل دی، جس میں ہزاروں کتابیں شامل تھیں۔ انہوں نے اپنی بیش بہا علمی ذخیرے کو مختلف تحقیقی اداروں کے لیے وقف کیا، تاکہ آنے والی نسلیں اس سے مستفید ہو سکیں۔ ان کی تصانیف کی تعداد ستر سے زائد ہے، جو کہ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں اسلامی فکر، اسلامی معاشیات، سیاست اور تحریکی لٹریچر پر محیط ہیں۔ "مذہب اور دورِ جدید”، "اسلامی فلسفہ حیات”، اور "اسلامی نظامِ حیات” جیسی کتابیں آج بھی علمی حلقوں میں بے انتہا قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔

سیاسی اور معاشی بصیرت

پروفیسر خورشید احمد صرف ایک مفکر ہی نہیں، بلکہ ایک عملی سیاست دان بھی تھے۔ 1978 میں وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی و ترقی کے طور پر انہوں نے پاکستان کی معاشی پالیسیوں پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ وہ تین مرتبہ سینٹ آف پاکستان کے رکن منتخب ہوئے اور اقتصادی امور پر قائمہ کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر اہم کردار ادا کیا۔ ان کی معاشی بصیرت کا اعتراف عالمی سطح پر ہوا تھا، جس کے نتیجے میں انہیں اسلامی ترقیاتی بینک ایوارڈ، شاہ فیصل ایوارڈ اور نشانِ امتیاز جیسے اعزازات سے نوازا گیا۔

بین الاقوامی شناخت

پروفیسر خورشید احمد کی فکری اور علمی خدمات کا دائرہ صرف پاکستان تک محدود نہیں تھا۔ وہ سینکڑوں بین الاقوامی کانفرنسز میں شرکت کر چکے تھے اور اسلامی معاشیات کو عالمی سطح پر متعارف کروانے میں ان کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ ملائیشیا، ترکی، جرمنی، سعودی عرب اور برطانیہ کی جامعات میں ان کے افکار پر باقاعدہ تحقیقی مقالات لکھے گئے ہیں، جو کہ ان کی فکری عظمت اور علمی وجاہت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ پروفیسر خورشید احمد ایک ممتاز سیاست دان، ایک معتبر ماہر معاشیات اور جماعت اسلامی کے سینئر ترین رہنما تھے۔ انہوں نے اسلامی نظامِ معیشت، نظام سیاست اور نظام تعلیم کے ایسے وقیع ترین شعبوں پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ وہ نہ صرف ایک باصلاحیت مفکر تھے بلکہ عملی سیاست میں بھی ان کا فعال کردار ہمیشہ نمایاں رہا۔

علمی فکری اور ادارہ جاتی خدمات

پروفیسر خورشید احمد نے اسلامی معیشت کے میدان میں بنیادی کام کیا۔ مرحوم اسلامی معیشت کے حوالے سے ایک سند کی حیثیت رکھتے تھے۔ انہوں نے جدید معاشی نظریات اور اسلامی اصولوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی وقیع کوشش کی۔ ان کی تصانیف میں "اسلامک معاشیات”، "اسلامی نظریہ حیات” اور "اسلام اور جدید دنیا کے چیلنجز” جیسی معرکہ آرا کتابیں شامل ہیں، جو کہ اسلامی فکر کو جدید تناظر میں پیش کر رہی ہیں۔ پروفیسر خورشید احمد اسلام آباد کے معروف تحقیقی ادارے آئی پی ایس کے بانی تھے، اس طرح وہ اسلامک فاؤنڈیشن (برطانیہ) کے بانی رکن تھے، اس طرح وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ معاشیات سے طویل عرصہ وابستہ رہے۔ انہوں نے دنیا بھر میں اسلامی بینکاری اور اسلامی مالیاتی نظام کے فروغ میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ پروفیسر خورشید احمد نے جامعہ تفہیم القرآن مردان اور جامعہ احیاء العلوم تیمرگرہ (ضلع دیر) کے قیام، استحکام اور ارتقاء میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔

سیاسی و عملی جدوجہد

پروفیسر خورشید احمد 1956 میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے اور جلد ہی اپنے خلوص، قابلیت اور قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت جماعت کی مرکزی قیادت کا حصہ بن گئے۔ وہ جماعت اسلامی کے نائب امیر اور سینیٹ آف پاکستان کے رکن بھی رہے۔ انہوں نے اسلامی نظام کے قیام کے لیے سیاسی، علمی اور سماجی محاذوں پر قابلِ قدر کام کیا۔ مرحوم 1978 سے 1987 تک جماعت اسلامی کے نائب امیر رہے۔ اس طرح اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ پروفیسر خورشید احمد مرحوم بار سینیٹر منتخب ہوئے اور بہترین خدمات انجام دیتے رہے۔ انہوں نے اسلامی مالیاتی نظام، تعلیمی اصلاحات اور اسلامی اخلاقیات کی بحالی کے لیے قانون سازی میں اہم کردار ادا کیا۔ اسلامی دستور اور قوانین کے نفاذ کے لیے انہوں نے ہر دستیاب پلیٹ فارم پر موثر کوششیں کیں۔

فکری و نظریاتی رجحانات

پروفیسر خورشید احمد کا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ اسلام صرف ایک مذہب نہیں بلکہ ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔ آئیے ان کے خیالات کی چند نمایاں جہتیں دیکھتے ہیں:

اسلامی نظام معیشت

ان کا ماننا تھا کہ سود سے پاک معیشت، زکوٰۃ کا نظام اور اسلامی بینکاری ہی غربت اور معاشی ناانصافی کا ٹھوس حل ہے۔

بنیادی تعلیمی اصلاحات

وہ اسلامی و سائنسی تعلیم کے امتزاج کے زبردست حامی تھے اور جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی علوم کی ترویج پر مسلسل زور دیتے تھے۔

بین المذاہب ہم آہنگی

اگرچہ وہ اسلامی نظام کے سچے اور پکے داعی تھے، لیکن وہ دیگر مذاہب کے ساتھ مکالمے اور پرامن بقائے باہمی کے بھی قائل تھے۔

مرحوم کے اعزازات

پروفیسر خورشید احمد کو کنگ فیصل انٹرنیشنل ایوارڈ برائے خدماتِ اسلام سے 1990 میں نوازا گیا تھا۔ اس کے علاؤہ متعدد بین الاقوامی یونیورسٹیوں سے اعزازی ڈگریاں عطا ہوئی۔ اس طرح پاکستان اور بیرونِ ملک اسلامی اسکالرز کی جانب سے ان کے کام کو بے انتہا سراہا گیا۔ پاکستان کا اعلیٰ سرکاری اعزاز نشان امتیاز بھی عطا ہوا تھا۔ وہ ملک و ملت کے ان چند لوگوں میں سے ایک تھے جن کی طرف ہمیشہ رہنمائی کے لیے نظریں اٹھتی تھیں

پروفیسر خورشید احمد ایک جامع العلوم شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے اسلام کے علمی، سیاسی، معاشی، اخلاقی اور نظریاتی پہلوؤں پر نہایت گہرا، وسیع اور دور رس کام کیا۔ ان کی فکر اور تحریریں آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ وہ نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی اسلام کی علمی اور فکری خدمت کرنے والے رہنما کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ان کی زندگی کا بنیادی مقصد اسلامی نظام کی بالادستی، بنیادی اقدار کا فروغ اور وسیع تناظر میں انسانیت کی فلاح و بہبود تھا۔ پروفیسر خورشید احمد صاحب کی رحلت سے ایک اہم علمی اور فکری باب کا اختتام ہوا لیکن ان کی فکر، تحریروں اور خدمات کا نور ہمیشہ تابندہ رہے گا۔ وہ نہ صرف ایک عظیم راہنما تھے، بلکہ ایک ایسے مربی تھے جنہوں نے ہزاروں لاکھوں دلوں کو علم و عمل کی روشنی سے منور کیا۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کے تمام تر حسنات، اقامت دین کی جد وجہد اور انسانیت کے فلاح و بہبود کے لیے انجام دینے والی کوششوں کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے