بھارت کی نفسیاتی برتری کا خاتمہ: ایک نئی جغرافیائی حقیقت

2025 میں اپریل کے مہینے میں جب مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں بھارتی فوج کے قافلے پر حملہ ہوا، تو جنوبی ایشیا ایک بار پھر جنگ کے دہانے پر جا پہنچا۔

حملے کے فوری بعد نئی دہلی نے حسبِ روایت ساری ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی، اور بھارتی میڈیا نے جنگی فضا پیدا کر دی۔

وزیراعظم مودی کی حکومت، جس کا بیانیہ ہمیشہ جارحانہ رہا ہے، ایک بار پھر "سبق سکھانے” کے وعدوں کے ساتھ میدان میں اتری۔ لیکن اس بار حالات ویسے نہ رہے جیسے ماضی میں تھے، اور نتائج بھارت کے لیے نہ صرف عسکری بلکہ نفسیاتی اور سیاسی محاذ پر بھی نقصان دہ ثابت ہوئے۔

پہلگام واقعہ کو بھارتی میڈیا اور سیاستدانوں نے بلا ثبوت پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اگلے دن ایک ہنگامی خطاب میں کہا: "یہ نیا بھارت ہے، اندر گھس کے مارے گا۔” اس خطاب کے بعد بھارتی فضائیہ نے 18 اپریل کی صبح بہاولپور کے قریب ایک کارروائی کی جس کا مقصد مبینہ دہشتگرد مراکز کو نشانہ بنانا تھا۔ بھارتی دعوؤں کے مطابق اس حملے میں بیس دہشتگرد مارے گئے، لیکن پاکستان نے اس دعوے کو مسترد کیا۔ سیٹلائٹ تصاویر اور آزاد صحافیوں کی رپورٹس میں اس حملے کے نتیجے میں کسی قسم کی تباہی کے شواہد نہ ملے۔

پاکستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے "آپریشن بنیان مرصوص” کا آغاز کیا۔

اور پاکستانی فضائیہ کے JF-17 تھنڈر اور F-16 طیارے بھارتی حدود کے قریب پرواز کرتے ہوئے مکمل تیاری کے ساتھ موجود تھے۔ اس کارروائی میں بھارتی رافائل طیاروں کو لاک آن کر کے سخت پیغام دیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق، ایک رافائل طیارہ بٹھنڈہ ائیر بیس سے اڑان بھرنے کے بعد پاکستانی فضائی مزاحمت ڈھیر کر دیا گیا۔

اگرچہ بھارت نے اس نقصان کو تسلیم نہیں کیا، لیکن بین الاقوامی صحافیوں اور عسکری ماہرین نے بٹھنڈہ بیس پر غیر معمولی سرگرمیوں کی نشاندہی کی۔

یہ واقعہ اکیسویں صدی کی جدید ترین فضائی جھڑپوں میں شمار ہوتا ہے جہاں پاکستان کی محدود مگر مؤثر دفاعی حکمت عملی نے بھارت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ بھارت کی اربوں ڈالر کی دفاعی سرمایہ کاری، خاص طور پر رافائل طیاروں کی خریداری، اس جھڑپ میں اپنی افادیت ثابت کرنے میں ناکام رہی۔ یہ پہلا موقع تھا جب بھارتی میڈیا کے بیانیے پر بھارتی عوام نے کھل کر سوالات اٹھائے۔

عالمی برادری نے فوری مداخلت کی۔ امریکہ، چین، ترکی، سعودی عرب، برطانیہ اور اقوام متحدہ نے دونوں ممالک پر تحمل کی اپیل کی۔

امریکہ کی طرف سے ایک سیز فائر فارمولہ بھی پیش کیا گیا جسے پاکستان نے فوری طور پر قبول کیا، جبکہ بھارت نے بھی رضامندی ظاہر کی۔ یہ رضامندی بھارت کی جارحانہ پالیسی کے خاتمے اور ایک نفسیاتی شکست کے مترادف تھی۔

بھارت کی حالیہ عسکری ناکامی نے "رائزنگ انڈیا” کے بیانیے کو شدید دھچکا پہنچایا۔ کئی دہائیوں سے بھارتی حکومت، میڈیا، بالی ووڈ، اور مغربی تھنک ٹینکس نے بھارت کو ایک ترقی یافتہ اور ناقابل تسخیر طاقت کے طور پر پیش کیا۔ تاہم، اس جنگی مہم جوئی کے نتائج نے حقیقت کی پردہ کشائی کی۔ پاکستان، جسے کئی سالوں سے سفارتی اور معاشی دباؤ میں لانے کی کوشش کی جا رہی تھی، نہ صرف ثابت قدم رہا بلکہ بین الاقوامی فورمز پر اخلاقی برتری حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
T
پاکستان کی قیادت، بالخصوص وزیراعظم، آرمی چیف اور ایئر چیف نے مسلسل ایسے بیانات دیئے جو اعتماد اور وقار کا مظہر تھے۔ ان بیانات میں کہا گیا کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتا لیکن ہر جارحیت کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان نے یہ ثابت کیا کہ نہ صرف اس کا دفاعی نظام فعال ہے بلکہ اس کی سفارت کاری بھی جدید تقاضوں کے مطابق ہے۔

بھارتی عوام، جو بھارتی میڈیا کی پروپیگنڈہ مہم کے زیر اثر رہتے تھے، جب حقیقت سامنے آئی تو سوشل میڈیا پر شدید ردِعمل سامنے آیا۔ "#ModiSurrenders”، "#RafaleFails” اور "#IndiaExposed” جیسے ہیش ٹیگز بھارت میں وائرل ہوئے۔ عوامی سطح پر حکومت سے سوالات پوچھے جانے لگے کہ اربوں ڈالر کی دفاعی سرمایہ کاری کا انجام صرف ایک نفسیاتی شکست کیوں نکلا؟

اس ساری صورتحال کے اثرات بھارتی معیشت پر بھی پڑے۔ ممبئی سٹاک ایکسچینج میں 1200 پوائنٹس کی کمی دیکھی گئی، جبکہ کئی بین الاقوامی سرمایہ کاروں نے بھارت کی معاشی و سیاسی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔ جنگی ماحول اور داخلی بے چینی نے بھارتی معیشت کو نقصان پہنچایا، اور بھارتی کرنسی کی قدر میں بھی کمی واقع ہوئی۔

پاکستان نے عالمی برادری کے سامنے اپنے موقف کو نہایت مؤثر انداز میں پیش کیا۔ اقوامِ متحدہ، او آئی سی، چین، ترکی اور سعودی عرب نے پاکستان کے تحمل اور ذمہ داری کی تعریف کی۔ چین نے ایک بیان میں کہا: "پاکستان نے ایک بڑی طاقت کے مقابلے میں امن کو ترجیح دے کر دنیا کے سامنے ایک نیا معیار قائم کیا ہے۔”

ماہرین کے مطابق یہ محض ایک عسکری کامیابی نہیں بلکہ پاکستان کی سفارتی اور نفسیاتی برتری کا ثبوت بھی ہے۔

گزشتہ دو دہائیوں میں یہ پہلا موقع تھا جب بھارت عالمی فورمز پر صفائی دیتا نظر آیا اور پاکستان اخلاقی بلندی پر دکھائی دیا۔

یہ واقعہ بھارت کے لیے ایک سبق ہے کہ طاقت کا مطلب صرف ہتھیاروں کی موجودگی نہیں، بلکہ ان کا دانشمندانہ استعمال ہے۔ اگر طاقت آزمائی جائے اور اس کے بعد پسپائی اختیار کرنی پڑے تو وہ طاقت کمزوری بن جاتی ہے۔ پاکستان نے یہ پیغام دیا ہے کہ ہم امن چاہتے ہیں، لیکن امن کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔

اس سب کے باوجود، یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ جنوبی ایشیا میں امن مکمل طور پر بحال ہو چکا ہے۔ بھارت میں موجود سیاسی انتہاپسند عناصر ابھی بھی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔

مودی حکومت نے اگرچہ سیز فائر قبول کیا، لیکن اندرونی دباؤ اور انتخابات کی سیاست کے باعث مستقبل میں دوبارہ ایسے حالات پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔

پاکستانی عوام کے لیے یہ ایک نیا جذبہ، نئی امید اور نیا حوصلہ ہے۔ 1971 کے زخم آج بھی قومی یادداشت کا حصہ ہیں، لیکن 2025 نے نئی تاریخ رقم کی ہے۔ "اب ہماری صفوں میں کوئی جنرل نیازی نہیں، اور سرنڈر کا لفظ ہماری لغت سے خارج ہو چکا ہے” جیسے جملے قومی وقار کا حصہ بن چکے ہیں۔

2025 کی یہ جنگی جھڑپ جنوبی ایشیا کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہے — جہاں بھارت کی نفسیاتی برتری کو زوال آیا، اور پاکستان نے اپنی صلاحیت، حکمت عملی، اور قومی اتحاد سے یہ ثابت کر دیا کہ وہ صرف ایک ایٹمی طاقت نہیں، بلکہ ایک نظریاتی، سفارتی اور عسکری قوت بھی ہے۔

یہ ہے "دا اینڈ آف دا مائٹی مودی”، اور ایک نئی جغرافیائی حقیقت کا آغاز….

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے