فیلڈ مارشل کا عہدہ دنیا بھر میں ایک عسکری وقار، قیادت اور جنگی بصیرت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یہ کوئی عام رینک نہیں بلکہ ایک ایسا اعزاز ہے جو صرف ان جرنیلوں کو عطا کیا جاتا ہے جنہوں نے جنگی میدان میں غیر معمولی فہم، بے مثال قائدانہ صلاحیت اور قومی دفاع میں تاریخی کردار ادا کیا ہو۔ دنیا میں سب سے پہلے یہ عہدہ اٹھارہویں صدی میں پروشیا (موجودہ جرمنی) کے بادشاہ فریڈرک ولیم نے تخلیق کیا، جس کے بعد یہ رینک برطانیہ، فرانس، روس اور دیگر یورپی ممالک میں رائج ہوا۔ برطانیہ میں اس عہدے پر سر برنارڈ لا مونٹگمری اور سر ڈگلس ہیگ جیسے جرنیل فائز رہے جنہوں نے عالمی جنگوں میں اپنی قوم کی قسمت بدل دی۔
پاکستان کی عسکری تاریخ میں اب تک صرف ایک شخصیت، جنرل محمد ایوب خان، کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ تاہم یہ ترقی جنگی خدمات کی بنیاد پر نہیں بلکہ سیاسی طاقت کے ارتکاز کے لیے کی گئی تھی، جو آج تک ناقدین کی نظروں میں متنازع سمجھی جاتی ہے۔ مگر حالیہ پاک بھارت جنگ کے تناظر میں آرمی چیف کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر فائز کرنے کا اعلان ایک بالکل مختلف حقیقت رکھتا ہے۔ یہ فیصلہ جنگی خدمات، حکمت عملی کی کامیابی اور دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ اس جنگ میں جب بھارتی افواج نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی اور پاکستانی حدود میں دراندازی کی کوشش کی، تو پاک فوج اور پاک فضائیہ نے ایسی برق رفتاری، نظم و ضبط اور جوابدہی کا مظاہرہ کیا کہ دشمن کے طیارے فضا میں تباہ ہو گئے اور اس کے زمینی ٹھکانے راکھ کا ڈھیر بن گئے۔ پاکستان کی افواج نے نہ صرف دشمن کے عزائم کو ناکام بنایا بلکہ عالمی سطح پر اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا لوہا بھی منوایا۔
اس ساری کارروائی کے دوران آرمی چیف نے جس فہم و فراست، قائدانہ صلاحیت اور جرأت مندی کا مظاہرہ کیا، وہ نہ صرف فوج بلکہ پوری قوم کے لیے فخر کا باعث ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر موجودہ حکومت نے انہیں فیلڈ مارشل کے رینک پر ترقی دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعزاز نہ صرف ان کی ذاتی خدمات کا اعتراف ہے بلکہ پوری فوج کی قربانیوں، نظم و ضبط، اور جذبۂ شہادت کا اعتراف بھی ہے۔
فیلڈ مارشل کا رینک رسمی ہونے کے باوجود وسیع تر قومی و عسکری اثر رکھتا ہے۔ یہ عہدہ فوجی اداروں میں تجربے، دانش اور تسلسل کی علامت ہوتا ہے۔ ایسے افسران قومی پالیسی سازی میں اہم مشیر کے طور پر شامل ہوتے ہیں اور عسکری نظریات کے تسلسل میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اس عہدے کے حامل افسر کی موجودگی، قومی دفاعی حکمت عملی میں استحکام پیدا کرتی ہے اور نئے جرنیلوں کے لیے ایک روشن مثال ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ اعزاز بین الاقوامی برادری کے لیے بھی ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان اپنی عسکری قیادت پر مکمل اعتماد رکھتا ہے اور کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ ایسے اعزازات اگر خالصتاً میرٹ اور جنگی خدمات کی بنیاد پر دیے جائیں، تو یہ قوموں کی تاریخ میں روشن ابواب کا اضافہ کرتے ہیں۔ ماضی میں جب ایوب خان نے خود کو فیلڈ مارشل قرار دیا تھا، تو اسے اقتدار کے دوام کی کوشش سمجھا گیا۔ لیکن آج، جب ایک ایسی جنگ کے بعد یہ اعزاز دیا گیا ہے جس میں دشمن کے دانت کھٹے کر دیے گئے، تو یہ فیصلہ محض علامتی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں قومی فخر کا مظہر ہے۔
فیلڈ مارشل کا رینک صرف ایک فوجی عہدہ نہیں، بلکہ ایک نظریہ ہے—مادرِ وطن سے بے مثال وفاداری، جانفشانی، قیادت، اور قومی وقار کا نظریہ۔ یہ اعزاز مستقبل کی نسلوں کے لیے ایک مشعلِ راہ ہے کہ جب ملک پر کڑا وقت آئے، تو قیادت کیسے کی جاتی ہے، دشمن کو کیسے شکست دی جاتی ہے، اور قوم کے اعتماد کو کیسے جیتا جاتا ہے۔ آج کا دن صرف ایک جرنیل کی کامیابی کا دن نہیں، یہ پوری قوم، افواجِ پاکستان اور شہداء کے لہو سے رنگی ہوئی اس تاریخ کا دن ہے جس پر ہمیشہ فخر کیا جائے گا۔
عرفان کیانی؛
mikayani@live.co.uk