ورکنگ وومن: جدوجہد، قربانی اور خاموشی

پرانے وقتوں میں زندگی سادہ تھی۔ مرد کمانے والا ہوتا تھا اور ایک شخص کی کمائی سے پورے گھرانے کے اخراجات بآسانی چل جاتے تھے۔ عورت گھر کی ذمہ دار ہوتی، بچوں کی پرورش، بزرگوں کی خدمت اور گھریلو امور بخوبی انجام دیتی تھی۔ زندگی میں سکون تھا، وقت میں برکت تھی اور لوگ قناعت پسند تھے۔

مگر وقت بدلا، دنیا کی رفتار تیز ہو گئی، مہنگائی آسمان کو چھونے لگی اور گھریلو اخراجات اتنے بڑھ گئے کہ ایک فرد کی آمدنی سے گزارا ممکن نہ رہا۔ اب گھر چلانے کے لیے مرد و عورت دونوں کو کمانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ عورت بھی مرد کے شانہ بشانہ کام کرتی ہے، دفاتر، اداروں اور فیلڈ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہے۔

لیکن یہاں ایک بہت بڑا تضاد موجود ہے۔ مرد صرف باہر کے کام تک محدود رہتا ہے، جبکہ عورت دوہری ذمہ داری کا بوجھ اٹھاتی ہے۔ ایک طرف دفتر، ادارہ یا کام کی جگہ، اور دوسری طرف گھر، بچے، کھانا پکانا، صفائی ستھرائی، سب کچھ اسی کے ذمہ داری ہے۔

سب سے زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ معاشرہ آج بھی ورکنگ وومن کو مکمل طور پر قبول نہیں کر پایا۔ اگر وہ گھر کو مکمل وقت نہ دے سکے تو فوراً طعن و تشنیع کا نشانہ بنتی ہے۔ کوئی اسے "لاپرواہ” کہتا ہے، تو کوئی "بے حس ماں” کا لقب دیتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ "بچوں کا خیال نہیں رکھتی”، تو کوئی "گھر کا سکون برباد کر دیا” کہہ کر دل دکھاتا ہے۔

حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ عورت اپنی ذات کو مکمل طور پر فراموش کر چکی ہوتی ہے۔ اس کے پاس نہ آرام کا وقت ہوتا ہے، نہ خود کی صحت کی فکر، نہ کوئی جذباتی سہارا۔ وہ مسلسل ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ میں شامل رہتی ہے۔ صبح دفتر، شام گھر، اور رات کو سونے سے پہلے کل کی تیاری۔ یہ تھکن اسے جسمانی نہیں، بلکہ ذہنی و جذباتی طور پر بھی کمزور کر دیتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا وہ سراہنے کی حقدار نہیں؟ کیا معاشرے کو اس کے حوصلے، اس کی محنت، اس کی قربانی کو نہیں ماننا چاہیے؟ کیا اسے اپنی خدمات کے بدلے تھوڑا سا سکون، احترام اور تعاون نہیں ملنا چاہیے؟

ورکنگ وومن کا موازنہ گھریلو خاتون سے کرنا بھی ایک غیر منصفانہ رویہ ہے۔ دونوں کا دائرہ عمل مختلف ہے۔ گھریلو خاتون گھر کو مکمل وقت دیتی ہے، جبکہ کام کرنے والی خاتون کو دفتر کے اوقات کے بعد ہی گھر کے لیے وقت نکالنا پڑتا ہے۔ وہ بھی انسان ہے، مشین نہیں، اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ہر میدان میں مکمل ہو، سراسر ناانصافی ہے۔

ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہو گا۔ ہمیں چاہیے کہ کام کرنے والی خواتین کی حوصلہ افزائی کریں، ان کی ذمہ داریوں میں ان کا ساتھ دیں، انہیں طعنے دینے کے بجائے عزت دیں تاکہ وہ ذہنی طور پر پرُسکون ہو کر بہتر انداز میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

کیونکہ اگر ایک عورت، ایک ماں، ایک بیوی یا ایک بیٹی مطمئن ہو گی تو وہی اطمینان پورے گھر کے ماحول میں جھلکے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے