ایران-اسرائیل جنگ میں اسرائیل کا کتنا نقصان ہوا؟

ایران اور اسرائیل کے دورمیں جون کے وسط میں 12 روزہ جنگ کے دوران ایران کی تباہی کی تفصیلات ہر ویب سائیٹ پر مل جائے گی مگر اسرائیل کے نقصانات کے بارے میں معلومات بہت محدود ہیں۔ اس جنگ کے دوران ایران کو عسکری اور تکنیکی نقصانات بہت زیادہ اٹھانے پڑے۔ اسرائیلی حملوں نے کئی اہم فوجی تنصیبات، میزائل لانچ سائٹس، اور ریڈار سسٹمز کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کر دیا۔ تہران، اصفہان، بندر عباس اور نطنز جیسے علاقوں میں حساس مراکز کو نشانہ بنایا گیا، جن میں کچھ نیوکلیئر تنصیبات اور میزائل فیکٹریاں بھی شامل تھیں۔ ایران کے متعدد جنگی طیارے، ڈرونز، اور ائیر ڈیفنس یونٹس تباہ ہوئے، جب کہ اعلیٰ فوجی کمانڈروں اور نیوکلیئر سائینسدانوں سمیت 950 کے قریب شہری ہلاک یا زخمی ہوئے۔ خاص طور پر امریکی بی-2 بمباروں سے فردو، اور نطنز اور اصفہان کی نیوکلیئر تنصیبات میں ہونے والے حملوں سے ایران کے جوہری پروگرام کو وقتی طور پر دھچکا لگا۔ بجلی گھروں، آئل ریفائنریوں اور مواصلاتی نظام کو بھی شدید نقصان پہنچا، جس سے نہ صرف دفاعی صلاحیت بلکہ معیشت بھی متاثر ہوئی۔ یہ نقصانات فوری طور پر پورے نہیں ہو سکتے۔

مگر مغربی میڈیا کی مجموعی دانشورانہ بے ایمانی ایک بار پھر اسرائیل اور ایران کے درمیان حالیہ جنگ کے دوران پوری شدت سے سامنے آئی ہے۔ جس طرح اس سے قبل اسرائیل کی غزہ پر بمباری کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی رپورٹنگ میں فلسطین-مخالف تعصب نمایاں تھا، اسی طرح اب ایران کے خلاف اسرائیل نواز بیانیہ اختیار کیا گیا ہے۔ اسرائیل نے غزہ میں غیر ملکی اور آزاد صحافیوں کے داخلے پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے تاکہ اس کے مظالم دنیا کی نظروں سے اوجھل رہیں، اور جو مقامی صحافی موجود تھے، اُنھیں منظم انداز میں چُن چُن کر قتل کیا گیا۔ معلومات کو دبانے کا اب یہی طرزِ عمل اسرائیل کے اندر ایرانی میزائل حملوں سے ہونے والی تباہی کی رپورٹنگ میں اختیار کیا گیا ہے، جہاں سخت سینسرشپ نافذ ہے۔ مغربی میڈیا، جو خود کو آزاد قرار دیتا ہے، اسرائیل میں ہونے والی بربادی کو آزاد ذرائع سے سامنے لانے کے بجائے صرف اسرائیلی حکام کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیزز پر انحصار کر رہا ہے۔ ایسے ماحول میں یہاں دیگر آزاد ذرائع اور ثانوی شواہد کی بنیاد پر 13 جون سے شروع ہونے والی بارہ روزہ جنگ میں اسرائیل کو پہنچنے والے نقصانات کا تخمینہ لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔

جنگ کے دوران سینسرشپ سخت تھا مگر اب اسرائیل کے لبرل اخبار ہارِٹز (Haaretz) نے امریکی ریسرچرز کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ جون 2025 میں ایران کے بڑے پیمانے پر کیے گئے میزائل اور ڈرون حملے کے دوران ایرانی میزائلوں نے اسرائیل کے اندر کم از کم 10 سٹریٹیجک اہداف کو نہایت درستگی کے ساتھ نشانہ بنایا۔ ہارِٹز کے مطابق، امریکہ میں موجود اوپن سورس تجزیہ کاروں نے ایسے کئی ایرانی میزائلوں کی نشاندہی کی جو اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام کو ڈاج دے کر حساس تنصیبات پر گرے۔ جن مقامات پر ان حملوں کے تباہ کن اثرات کی تصدیق ہوئی ہے، ان میں اسرائیلی فوجی مراکز، سائنسی تحقیقی ادارے، اور حساس شہری علاقے شامل ہیں، جیسا کہ رامات اویو (Ramat Aviv) کا علاقہ، جہاں 23 شہریوں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاع ہے۔ اسرائیلی میڈیا نے سویلینز انفراسٹریکچر کے نقصانات کی زیادہ خبریں دیں لیکن ملٹری انفراسٹرکچر کے بارے میں خبروں کو سینسر کیا۔ ماہرین کے مطابق ایرانی میزائلوں کے یہ حملے بے ترتیب یا اتفاقی نہیں تھے بلکہ خاص اہداف پر کیے گئے، جو ایران کی ٹارگٹ کرنے کی اعلیٰ مہارت اور سٹریٹیجک ارادے کو ظاہر کرتے ہیں۔

ہارِٹز نے مزید لکھا کہ ایران نے جان بوجھ کر اسرائیل کی سائنسی اور ٹیکنالوجیکل تنصیبات کو نشانہ بنایا، جو ظاہر کرتا ہے کہ ایران کی میزائل مہم صرف ملٹری مقاصد تک محدود نہیں بلکہ اس کا ہدف اسرائیل کے سٹریٹیجک اور سائینٹفک اثاثے بھی تھے۔ ایک سینئر اسرائیلی دفاعی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہارِٹز کو بتایا کہ ایران نے اسرائیل کے سائنسی انفراسٹرکچر کو اپنی “قتل کی فہرست” (kill-list) میں بہت اونچے درجے پر رکھا ہوا ہے۔ رپورٹ میں اس بات کی بھی تصدیق کی گئی ہے کہ ایران کے فائر کیے گئے میزائلوں اور ڈرونز میں سے صرف تقریباً 86 فیصد کو اسرائیلی دفاعی نظام روک سکا، جبکہ باقی 14 فیصد میزائل اسرائیلی حدود میں آ کر گرے — جو اسرائیل کے کثیر سطحی دفاعی نظام میں واضح خلا کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ شواہد ایران کی میزائل ٹیکنالوجی کی بڑھتی ہوئی مہارت اور رینج کو اجاگر کرتے ہیں، اور خطے میں طاقت کے توازن میں ایک نمایاں تبدیلی کا اشارہ دیتے ہیں۔ اسرائیل اب بھی مسلسل اپنے سٹریٹجک نقصان کم کر کے بیان کر رہا ہے لیکن امریکی مداخلت اور پھر بعد میں صدر ڈونلڈ کا اپنا بیان واضح کرتا ہے کہ ایرانی میزائلوں سے اسرائیل کا کافی نقصان ہوا ہے۔

جون کے وسط میں ہونے والی بارہ روزہ ایران-اسرائیل جنگ مشرق وسطیٰ میں جنگی تاریخ کا ایک بے مثال موڑ تھی—نہ صرف اس کے پیمانے اور تباہی و بربادی کے اعتبار سے، بلکہ اس مالی تباہی کے اعتبار سے بھی جو اسرائیلی ریاست کو بھگتنا پڑی۔ اگرچہ مغربی اور اسرائیلی مرکزی میڈیا نے سخت سنسرشپ اور جنگی ڈس انفارمیشن کی وجہ سے اس تباہی کی شدت کو کم کرکے پیش کیا، لیکن غیر مغربی (non-western) اور خودمختار تجزیہ کاروں کی ایک بڑی تعداد نے ایک بالکل مختلف تصویر پیش کی—ایک ایسی تصویر جس میں یہ جنگ اسرائیل کے لیے اتنے بڑے معاشی نقصان کا باعث بنی کہ اُسے بالآخر امریکی دباؤ کے تحت جنگ بندی قبول کرنا پڑی۔ اگر اسرائیل کو سنگین نقصان نہ ہوا ہوتا تو وہ ایران پر ویسے ہی حملے جاری رکھتا جیسے اس نے غزہ پر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بحری انشورنس کے اعداد و شمار، عسکری اخراجات کے تخمینے، علاقائی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں، اور آزاد تجزیہ کاروں جیسے سکاٹ ریٹر (Scott Ritter) کی دوٹوک رائے کو سامنے رکھتے ہوئے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس جنگ کے مالی اثرات اربوں (billions) میں نہیں بلکہ سینکڑوں ارب (hundreds of billions) ڈالروں میں ناپے گئے۔

جنگ کی شدت کا ایک سب سے مؤثر اشارہ یورپ کی بحری انشورنس انڈسٹری سے ملا۔ 17 جون 2025 کو خبر رساں ادارے رائٹرز (Reuters) نے رپورٹ کیا کہ اسرائیلی بندرگاہوں پر لنگر انداز ہونے والے بحری جہازوں کے لیے جنگی خطرے کی انشورنس پریمیئم (war-risk premiums) جنگ سے قبل کی سطح 0.2 فیصد سے بڑھ کر 0.7 فیصد سے 1.0 فیصد کے درمیان جا پہنچے۔ برطانیہ کی کمپنی میک گل اینڈ پارٹنرز (McGill & Partners) کے نیول ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ڈیوڈ سمتھ (David Smith) نے رائٹرز کو بتایا: “اسرائیل کے لیے جہازوں کی آمد رفت اب کیس ٹو کیس (case-by-case) بنیاد پر دیکھی جا رہی ہے، اور ریٹ بعض اوقات سات روزہ قیام کے لیے 1 فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔” یہ اضافہ عالمی منڈی کے لیے ایک واضح اشارہ تھا کہ اسرائیل ایک نہایت بلند خطرے والا جنگی زون بن چکا ہے۔ صرف چند روز بعد، 23 جون کو رائٹرز نے ایک بار پھر ڈیوڈ سمتھ کا حوالہ دیا، جنہوں نے ان بلند انشورنس ریٹس کے برقرار رہنے کی تصدیق کی اور انہیں جاری علاقائی تصادم سے منسلک کیا۔

اگرچہ سمتھ نے براہ راست اسرائیلی نقصانات کی مجموعی مالیت کا تخمینہ نہیں دیا، مگر ان کے فراہم کردہ اعداد و شمار نے مزید تجزیوں کی بنیاد فراہم کی۔ غیر مغربی مالیاتی اور پالیسی حلقوں میں—خصوصاً خلیجی ممالک کے بحری اور اقتصادی تجزیہ کار اداروں میں—ان بلند انشورنس ریٹس کو قومی سطح پر انفراسٹرکچر اور معیشت کے خطرے کا ایک اشارہ سمجھا گیا۔ عرب اور ایشیائی مالیاتی ذرائع ابلاغ میں تجزیہ کاروں نے جنگی انشورنس پریمیئم میں اس اضافے کو اسرائیلی سی پورٹ شہروں اور انڈسٹریل کوریڈورز میں ہولناک تباہی کی علامت قرار دیا۔ ان انشورنس ریٹس سے اندازہ لگاتے ہوئے، اور شہری و معاشی مراکز میں طویل عسکری تعطل کو دیکھتے ہوئے، کئی تجزیوں—جن میں ایک مشرق وسطیٰ کے مالیاتی ذرائع ابلاغ میں وسیع پیمانے پر گردش کرنے والا تجزیہ بھی شامل ہے—نے اسرائیل کے مجموعی تعمیر نو کے اخراجات کو 400 ارب ڈالر تک قرار دیا۔ اس تخمینے کو یورپی انشورنس تجزیہ کاروں، خاص طور پر میک گل اینڈ پارٹنرز کے ڈیوڈ سمتھ سے منسوب کیا گیا، جن کے فراہم کردہ ٹھوس اعداد و شمار نے اس تجزیے کی بنیاد فراہم کی۔ اگرچہ رائٹرز میں ان کا براہ راست یہ بیان موجود نہیں، مگر یہ تخمینہ جون 2025 کے وسط سے اواخر تک غیر مغربی ذرائع ابلاغ میں بھرپور طریقے سے گردش کرتا رہا (العربیہ، 20 جون 2025؛ گلف فنانشل ریویو، 25 جون 2025)۔

آزاد دفاعی تجزیہ کار اور اقوام متحدہ میں ہتھیاروں کے سابق انسپکٹر سکاٹ ریٹر نے اس سے بھی زیادہ براہ راست اور صریح تجزیہ پیش کیا۔ 16 جون 2025 کو پوڈکاسٹ “Judging Freedom” پر دیے گئے ایک انٹرویو میں ریٹر نے اسرائیل کی جنگی صورتحال کو “سٹریٹیجک شکست” قرار دیا۔ انہوں نے صاف الفاظ میں کہا: “اسرائیل ختم ہو چکا ہے۔ ہم جو کچھ کر سکتے تھے، وہ کر چکے اور وہ بھی ناکام رہا۔” ریٹر کے اس بیان کو مشرق وسطیٰ اور ایشیا میں غیر مغربی ذرائع ابلاغ نے بڑے پیمانے پر شائع کیا، اور ان کے الفاظ کو مجموعی نقصانات—عسکری، اقتصادی، اور بنیادی ڈھانچے—کے لحاظ سے 500 ارب ڈالر تک کے برابر سمجھا گیا۔ خاص طور پر، ایک علیحدہ انٹرویو میں ریٹر نے واضح طور پر کہا: “اسرائیل کے نقصانات پانچ سو ارب ڈالر ہیں۔” اس بیان کو متعدد آزاد ذرائع، جیسے کہ المنار اور پریس ٹی وی، نے نقل کیا (Judging Freedom، 16 جون 2025؛ المیادین، 18 جون 2025؛ پریس ٹی وی، 20 جون 2025)۔ ان بیانات کو اس وجہ سے بھی غیر معمولی وزن حاصل ہوا کیونکہ سکاٹ ریٹر کی معلومات دفاعی و انٹیلیجنس شعبے میں ان کے وسیع تجربے پر مبنی تھیں۔

پین-عرب ذرائع ابلاغ اور علاقائی مالیاتی ماہرین نے بھی جنگ کے نقصانات کے براہ راست تخمینے فراہم کیے۔ 26 جون کو متحدہ عرب امارات کے روزنامے The National نے عرب امریکن یونیورسٹی، رام اللہ سے وابستہ مالیاتی امور کے ماہر پروفیسر ناصر مفرج کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ “جنگ کے دوران تمام پیداواری شعبے شدید متاثر ہوئے،” اور انہوں نے براہ راست نقصانات کا تخمینہ تقریباً 6 ارب ڈالر لگایا، جو کہ اسرائیل کی سالانہ جی ڈی پی کا 1 فیصد ہے۔ اسی روز ایران کے سرکاری ٹی وی پریس ٹی وی نے گمنام مگر مبینہ طور پر باخبر اسرائیلی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ براہ راست نقصانات 12 ارب ڈالر تک پہنچے، اور ممکنہ کل نقصانات 15 سے 20 ارب ڈالر کے درمیان ہو سکتے ہیں۔ یہ تخمینے بنیادی طور پر شہری انفراسٹرکچر، کاروباری بندش، اور لاجسٹک نظام کی تباہی پر مبنی تھے، جبکہ عسکری اخراجات اور طویل مدتی اقتصادی اثرات ان میں شامل نہیں تھے (The National، 26 جون 2025؛ پریس ٹی وی، 26 جون 2025)۔

فقط عسکری اخراجات ہی نے اسرائیل پر ایک غیر معمولی بوجھ ڈال دیا۔ پاکستانی جریدے “تھنک ٹینک ریویو” (Think Tank Review) کے مطابق، اسرائیل نے اس بارہ روزہ جنگ میں میزائلوں سے دفاع پر یومیہ اوسطاً 725 ملین ڈالر خرچ کیے، جس سے کل عسکری آپریشنل خرچ تقریباً 8.7 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ آئرن ڈوم (Iron Dome)، ڈیوڈز سلِنگ (David’s Sling)، ایرو-2 (Arrow-2)، اور تھاڈ (THAAD) جیسے سسٹمز کے انٹرسیپٹرز کی قیمتیں بہت زیادہ تھیں، اور ان کی عملی ناکامی نے مالی نقصان کو اور بڑھا دیا۔ جیسا کہ سکاٹ ریٹر اور دیگر تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی، ایران کے درست نشانہ بنانے والے بیلسٹک میزائلوں (precision-guided ballistic missiles) نے اسرائیل کے کثیر سطحی (multi-layered) فضائی دفاعی نظام کو نسبتاً آسانی سے چیرتے ہوئے تل ابیب، حیفا، اشدود، اور بیرشبع جیسے بڑے شہروں میں وسیع تباہی مچائی۔ یہ ناکامی نہ صرف اسرائیلی حربی روک تھام (deterrence) بلکہ اس کی ملٹری-انڈسٹریل ساکھ کے لیے بھی ایک کاری ضرب تھی، جس کا طویل المدتی نقصان اس کے دفاعی برآمداتی شعبے کو ہو سکتا ہے۔

فوجی نقصانات، جنہیں اسرائیل نے سخت سنسرشپ کی وجہ سے چھپایا، میں ائر پورٹس، میزائل بیٹریوں، ریڈار تنصیبات، اور اہم مواصلاتی مراکز کا تباہ ہونا شامل ہے۔ ایرانی پاسداران انقلاب کے ذرائع کے مطابق، اسرائیلی نیواتیم ائر بیس (Nevatim Airbase) کے میزائل دفاعی ریڈارز اور اشدود کے قریب ایک بڑی میزائل بیٹری مخصوص حملوں میں تباہ کر دی گئی، جبکہ کئی ڈرونز اور جنگی طیارے یا تو ناقابلِ استعمال ہو گئے یا بری طرح متاثر ہوئے۔ مشرق وسطیٰ کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کی رپورٹس، جو مشرق وسطیٰ کے میڈیا اداروں “المیادین” اور “المنار” کو لیک ہوئیں، اُن کے مطابق اسرائیل کی تکنیکی برتری کو شدید نقصان پہنچا، اور اس کے الیکٹرانک وارفیئر سسٹمز کئی دن تک مفلوج رہے۔

یہ تمام تجزیے ایک مشترکہ نتیجے پر پہنچتے ہیں: اسرائیل کے لیے اس جنگ کی قیمت سرکاری سطح پر تسلیم شدہ اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔ انشورنس کی بلند شرحیں، بڑھتے ہوئے عسکری اخراجات، فضائی دفاع کا انہدام، اور اہم انفراسٹرکچر کی کھلی تباہی—یہ سب اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ جنگ کو جاری رکھنا اسرائیل کے لیے ناقابلِ برداشت ہو چکا تھا۔ سکاٹ ریٹر کا یہ کہنا کہ “اسرائیل ختم ہو چکا ہے” شاید مغرب میں مبالغہ محسوس ہو، مگر جب مجموعی مالی نقصانات 400 سے 500 ارب ڈالر کے درمیان ہوں، تو یہ رائے بہت زیادہ بعید از قیاس نہیں لگتی۔

پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو جنگ کے آخری دنوں میں جب واشنگٹن نے خود ایران پر حملے کیے اور پھر جنگ بندی کروائی، تو یہ اقدام محض ایک سفارتی کام نہیں تھا بلکہ اسرائیل کو ایک جیوپولیٹیکل بچاؤ کی کوشش محسوس ہوتا ہے۔ اسرائیل کی اربوں ڈالر کی میزائل ڈھالیں ناکام ہو چکی تھیں، اور معیشت نہ صرف براہِ راست حملوں بلکہ انشورنس کی عالمی سطح پر تنزلی اور سرمایہ کاروں کی پس و پیش سے خون میں لت پت تھی۔ جنگ کو جاری رکھنے کی صورت میں قومی سطح پر انہدام کا خطرہ بڑھ چکا تھا۔ اس قدر وسیع مالی اثرات تھے کہ مغربی مالیاتی ادارے بھی اسرائیل کو انشورنس کی درجہ بندی میں کمی اور عالمی سرمایہ کاری سے کنارہ کشی سے نہ بچا سکے۔

جہاں مغربی حکومتیں اور ذرائع ابلاغ اس جنگ کے نتائج کو معمولی اسرائیلی نقصانات اور ملٹری ڈیٹیرینس کی بحالی کے طور پر پیش کر رہے ہیں، وہیں غیر مغربی (non-western) ذرائع ایک بالکل الگ کہانی سنا رہے ہیں۔ یورپی بحری انشورنس انڈسٹری سے لے کر عرب ماہرینِ معیشت اور سکاٹ ریٹر جیسے خودمختار دفاعی تجزیہ کاروں تک، ابھرنے والا مجموعی نکتہ یہی ہے کہ اسرائیل جون 2025 کی جنگ سے صرف لہولہان نہیں بلکہ بنیادی سطح پر اقتصادی طور پر لرز چکا ہے۔ یہ جنگ امن کے لیے نہیں، بلکہ انہدام سے بچنے کے لیے روکی گئی—اور یہ سچ اب رفتہ رفتہ آشکار ہو رہا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے