گالیاں دینے والے وارث ؟

کہتے ہیں ایک بادشاہ نہایت پرہیز گار اور متقی تھا جب تک وہ وضو میں نہ ہوتاحضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام اپنی زبان سے نہ لیتا ایکدن ایک شہزادہ اسکے پاس بطور مہمان آیا بادشاہ نے اسکی رہائش کا بندوبست اپنے ساتھ والے کمرے میں کرایا رات گئے بادشاہ نے آواز دی۔۔ حسن ۔۔جو اس نے اپنے خادم کو دی تھی مہمان نے دیکھا کہ خادم گیا اور ایک پانی کا لوٹا رکھکر واپس لوٹ آیا۔۔۔۔شہزادہ حیران ہوا کہ خادم بادشاہ کے کمرے میں لوٹا رکھکر واپس لوٹا۔اس نے سوچا صبح اس نوکر کی خیر نہیں لیکن جب صبح ہوئی تو تمام معاملات معمول کے مطابق تھے،

شہزادے نے نوکر کو بلایا اور کہا کہ میرا خیال تھا کہ بادشاہ تمھیں صبح ہوتے ہی قتل کر دے گا کیونکہ تم اس کی بات سنے بغیر ہی لوٹا رکھ کر واپس آگئے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا آخر ماجرا کیا ہے تو نوکر بولا۔۔۔کہ میرا پورا نام محمد حسن ہے اور بادشاہ سلامت کی یہ عادت ہے کہ جب تک وہ وضو میں نہ ہو آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام اپنی زبان سے نہیں لیتے کیونکہ میرے نام کے ساتھ محمد آتا ہے تو انہوں نے مجھے صرف حسن کہہ کر بلایا تو مجھے پتہ چل گیا کہ انکا وضو نہیں ہے اور انہیں پانی کی ضرورت ہے سو میں فوری طور پر گیا اور پانی کا لوٹا بھر کر رکھ آیا۔۔۔

۔یہ بات اس بادشاہ کی ہے جو صرف تاریخ کا حصہ ہے لیکن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے عقیدت اور محبت نے اس کا نام زندہ رکھا ہوا ہے۔۔بطور مسلمان ہم سب پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے محبت انکے اخلاق کی پیروی لازم ہے۔۔۔

لیکن ہم آج کیا کر رہے ہیں ہمارے چند دینی رہنمائوں کا اخلاق جو ان دنوں میں سامنے آیا ہے وہ کس بات کی نشاندہی کر رہا ہے ذرا سوچیئے۔۔۔۔کیا یہ اسلام ہے کیا ہم اسلام کا صحیح رخ دنیا کے سامنے لا رہے ہیں۔۔ڈی چوک میں دیئے جانے والے دھرنے سے جو ویڈیوز سوشل میڈیا پر آرہی ہیں اور ان میں جو زبان وہاں بیٹھے دینی رہنماٗ استعمال کر رہے ہیں

کیا یہی اسلام کی تعلیمات ہیں۔ کیا لیاقت باغ سے ڈی چوک تک مارچ کے دوران جووطیرہ اختیار کیا گیا کیا اسلام نے ہمیں یہ سکھایا ہے،یقیناً نہیں لیکن پھر ایسا کیوں ؟کیا ہم خود دنیا کو اسلام سے دور کرنا چاہتے ہیں۔؟۔۔میں ایک طالبعلم ہوں جس کو شاید اسلام کی تعلیمات کے بارے میں دھرنے کے شرکاٗ سے زیادہ معلوم نہ ہوں لیکن میں نے جتنا اسلام کو جانا ہے اور جو اپنے اساتذہ سے سیکھا ہے اس مین یہ ضرور بتایا گیا ہے کہ اسلام اچھے اخلاق کی تعلیم دیتا ہے اس میں گالم گلوچ دینے کی سختی سے ممانعت ہے اسلام جابر اور ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے کی تعلیم تو دیتا ہے لیکن گالیاں دینے کی نہیں۔۔۔۔

اسلام املاک کو نقصان پہچانے کی ترغیب نہیں دیتا اور املاک بھی وہ جو عوام کی سہولت کیلئے عوام کے ٹیکسوں سے حاصل کردہ رقوم سے بنی ہوں۔۔اسلام کسی کی غیر موجودگی میں اسکو برا بھلا کہنے یا اسکی غیبت کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دیتا اگر اسلام کی یہی ترغیبات ہیں تو جو کچھ ہم دھرنے میں دیکھ رہے ہیں وہ تعلیمات کہاں کی ہیں ؟

میں نے جہاں تک پڑھا ہے جو آباؤ اجداد سے سنا ہے اسکے مطابق صوفیاٗ کرام نے تو علم،امن اور محبت کا درس دیا ہے تو پھر یہ لوگ جو دھرنے میں شریک ہیں یہ کونسے سے صوفیاٗ کو ماننے والے ہیں جن کے نہ تو ہاتھ اور ٹانگیں قابو میں ہیں اور نہ ہی انکی زبان،،،،اسلام نے کہاں تشدد کا درس دیا کم سے کم میری سمجھ سے بالاتر ہے۔۔۔

عشق نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے دین کا بنیادی جزو ہے جس کے بغیر ہمارا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امین اور صادق ہونے کی گواہی تو غیر بھی دیتے تھے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق سے متاثر ہو کر کو غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہوئے،تو ہم کس اسلام کو پھیلا رہے ہیں؟۔۔۔یہ وقت سوچنے کا ہے کہ ہمیں کس کا انتخاب کرنا ہے اس ملا ازم کا جو سٹیج پر کھڑے ہو کر دوسروں کو برا کہہ رہے ہیں اور گالیاں دے رہے ہیں یا اس اسلام کا جس کی تعلیمات میں اچھا اور بہترین اخلاق سر فہرست ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے