چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات

نیپولین بونا پارٹ نے ایک مرتبہ چین کو ”سوئی ہوئی بلا” قرار دیا تھا۔چین اب جاگ چکا ہے اور اپنے حجم کے مطابق رہ رہا ہے۔”بلا کی نیند اور اس کو جاگ جانا چاہیے تو دنیا ہل کر رہ جائے گی”۔چنانچہ چین اب جاگا ہوا ہے اور دنیا کو ہلا رہا ہے۔

چین نے پانچ سو سال تک بہت تھوڑا کام کیا تھا جبکہ وہ وسائل کے اعتبار سے مالا مال ملک تھا مگر یورپی طاقتیں اس کے یہاں لوٹ مار کرتی رہی تھیں۔ماؤ کے انقلاب کے بعد اس نے انضمام کا عمل شروع کیا تھا۔پھر اس نے پیداوار پر توجہ مرکوز کی۔اس دوران بہت سے تجربات کیے گئے اور ”ثقافتی انقلاب” بھی برپا کیا گیا لیکن چینیوں کو دنیا کی سطح پر توازن کے حصول کے لیے عزم ولگن کی بھاری قیمت بھی چکانا پڑی ہے۔ابتدائی عمل کے دوران انھیں ”زرد پنسل” قرار دیا گیا اور وہ ایسے تھے نہیں مگر انھوں نے اپنی ترقی کا عمل جاری رکھا۔

اور یہ امریکی صدر رچرڈ نکسن تھے جو سب سے پہلے 1972ء میں چین کے دورے پر آئے تھے۔انھوں نے چئیرمین ماؤ زے تنگ سے ملاقات کی اور چین کے ساتھ تعلقات استوار کیے۔اس طرح وہ دنیا کے منظر پر ابھر کر سامنے آیا۔

سعودی عرب نے چین کے ساتھ 1990ء میں سفارتی تعلقات استوار کیے تھے۔اس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہوئے ہیں۔چین تیل کا ایک بڑا درآمد کنندہ ملک بن چکا ہے۔ تاہم ہر سال چین کی کاروبار اور صنعت میں صلاحیت بڑھنے کے ساتھ ان تعلقات کی اہمیت بھی بڑھتی چلی جارہی ہے۔

عالمی اقتصادی منظرنامے میں چین کا بڑھتا ہوا اثر ورسوخ ،تمام شعبوں میں اس کی نئی اطلاقی ایجادات ،اس کی ایشیا اور افریقا کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانے کی صلاحیت ،معیشت میں مرکزی نظام سے سرمایہ دارانہ مارکیٹ میں تبدیلی اور سماج کے تقاضوں کے مطابق اصلاحات نے اس کو لیجنڈ بنا دیا ہے۔

اقتصادی نمو کی بلند شرح سے حوصلہ پا کر چینیوں نے عالمی اسٹیج میں ایک بڑا کردار ادا کرنا شروع کردیا تھا۔ وہ سماجی ،اقتصادی اور سیاسی سمیت تمام پلیٹ فارموں پر زیادہ فعال کردار ادا کرتے نظر آئے۔ چنانچہ چینیوں کی شمولیت کے بغیر آج کی دنیا میں کوئی بھی اقتصادی منصوبہ ممکن نہیں ہوگا۔

سعودی قیادت نے اس کا ادراک کر لیا ہے اور جب نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ویژن 2030ء کا اعلان کیا تو اس کا مقصد ،ویژن اور ہدف ایک ایسا فعال سعودی عرب ہے جس کا بغیر تیل ایک ٹھوس معیشت پر انحصار ہو۔اس مقصد کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ چین کے ساتھ اقتصادی ،سماجی اور صنعتی شعبوں میں تعاون کو فروغ دیا جانا چاہیے۔یہ غالباً نائب ولی عہد کا سب سے بنیادی مثبت اقدام ہے کیونکہ چینیوں کے پاس کسی قسم کی سیاسی شرائط کے بغیر پیش کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔

شہزادہ محمد بن سلمان کے گروپ 20 کے سربراہ اجلاس سے قبل چین کے حالیہ دورے کے موقع پر دونوں ملکوں نے باہمی مفاد پر مبنی دوطرفہ اقتصادی تعاون سے متعلق متعدد سمجھوتوں پر دستخط کیے تھے۔چینی قائدین نائب ولی عہد سے متاثر ہوئے تھے اور انھوں نے سعودی مملکت کو ایک صارف قوم سے پیداواری قوم میں تبدیل کرنے کے لیے ان کے عزم کا بھی ادراک کیا تھا۔

وژن 2030 ء،جس میں تمام متعلقہ فریق شامل ہیں،سماجی ترقی کے لیے ایک بنیاد ہے۔ہم اس کو ناکامی سے دوچار ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتے ہیں۔نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اس کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں اور وہ پُرعزم ہیں کہ اس تمام عمل میں بنیادی عامل مشرق اور خاص طور پر چین کے ساتھ طویل المیعاد اقتصادی اور سیاسی تعلقات ہیں۔
دونوں ممالک اب معیشت کے احیاء کے لیے مل جل کر کام کریں گے اور جیسا کہ چینی صدر شی جین پنگ نے کہا تھا کہ ”جی 20 بین القومی اقتصادی تعاون کے فروغ اور رہ نمائی کے لیے اہم کردار ادا کرے گا”۔ پائیدار اور متوازن شرح نمو ،بین القومی اقتصادی تعاون ،درپیش بڑے اقتصادی اور ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حل ہی کامیابی کی واحد کلید ہیں۔

شہزادہ محمد بن سلمان کا چین کا دورہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ سعودی عرب بین الاقوامی اقتصادی ایجنڈے کی حمایت کرتا ہے اور وہ اس کے چیلنجز کو سمجھنے کے لیے کردار ادا کرنے اور علاقائی اور عالمی شرح نمو کے فروغ کے لیے مدد دینے کو بھی تیار ہے۔

————————–

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے