بابرہ پنڈی بھٹیاں کے مزدور طبقے کی عورت تھی جو اسلام آباد کے ایک امیر گھرانے کی گھریلو ملازمہ تھی، اس پر 6 لاکھ روپے چوری کرنے کا الزام لگا اور بدنامِ زمانہ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید کر دیا گیا، وہ حاملہ تھی، اس نے چار بار مختلف عدالتوں سے التجا کی کہ اسے زچگی کے لئے ضمانت پر رہا کیا جائے۔ ایک عدالت نے جیل حکام سے استفسار کیا کہ آیا جیل میں زچگی کی سہولیات ہیں؟، انکار میں جواب ملنے کے باوجود بابرہ کو زچگی کے لئے ضمانت پر رہا کرنے سے انکار کر دیا گیا، بابرہ کی جانب سے آخری بار ایڈیشنل اینڈ سیشن جج عابدہ سجاد کی عدالت سے رجوع کیا گیا اور درخواست دائر کی گئی کہ شائد جج صاحبہ خاتون جج ہونے کے بنا پر اس کی مبجوری کو سمجھ سکے، لیکن اس جج صاحبہ نے بھی 21 ستمبر کو ملزمہ کی درخواست مسترد کر دی اور ارشاد فرمایا کہ طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت منظور نہیں کی جا سکتی۔
ملزمہ بابرہ کی جانب سے طبی بنیادوں پر ضمانت پر رہائی کے لئے پہلی درخواست جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں دائر کی گئی، جو 19 اپریل کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دی گئی، دوسری درخواست ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں دائر ہوئی، جو 7 مئی کو غیر ضروری سمجھ کر مسترد کردی گئی۔ بابرہ کی جانب سے زچگی کے معاملے پر اسلام آباد ہائیکورٹ سے بھی رجوع کیا گیا، لیکن 27 جون کو عدالت عالیہ سے بھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، آخری اور چوتھی درخواست ایڈیشنل سیشن جج عابدہ سجاد نے 21 ستمبر کو مسترد کر دی۔ ملزمہ بابرہ کو جج عابدہ سجاد سے بڑی امید تھی کہ زچگی کی تاریخ قریب ہے، شائد یہ جج صاحبہ صنف نازک ہونے کے ناطے اس کی مدد کرے، مگر اسے کیا خبر تھی کہ اس کی یہاں بھی شنوائی نہیں ہونی۔ یوں بابرہ 28 ستمبر کو دوران زچگی اپنے معصوم بچے کے ہمراہ زندگی کی بازی ہار گئی۔
سچ تو یہ ہے کہ بابرہ ایان علی نہیں تھی، اس لئے زچگی کے دوران جیل میں ہی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گئی، وہ ایان علی ہوتی تو اسے پیتزا بھی ملتا، منرل واٹر بھی، جوس بھی ملتا، انواع و اقسام کے کھانے بھی دستیاب ہوتے، جوگنگ ڈریس بھی ملتا اور ہر وہ چیز جو اس کی امیر اور برتر طبقاتی حیثیت اس کے لئے ممکن بنا سکتی تھی، سب ملتا لیکن بابرہ کے پاس یہ طبقاتی امتیاز کہاں تھا۔ اس کے کیس کی پیروی کرنے والا سردار لطیف کھوسہ جیسا وکیل بھی تو نہیں تھا، اس کا تعلق کسی سیاسی گھرانے یا شریک چیئرمین پیپلزپارٹی سے بھی تو نہ تھا۔ بابرہ سپر ماڈل بھی تو نہیں تھی کہ میڈیا اس کی دن رات کوریج کرتا اور اس کا مسئلہ اٹھاتا۔ وہ غریب مزدور عورت جو رزق کی تلاش میں اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹن ٹو میں ایک بااثر خاندان کے پاس روزی روٹی کمانے آئی تھی، اسے کیا خبر تھی کہ اسے الزام ثابت کئے بغیر ہی ابدی نیند سلا دیا جائیگا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس ظلم پر نہ تو اعلٰی آزاد عدلیہ کوئی نوٹس لے گی اور نہ ہی حکومت ٹس سے مس ہوگی، حتٰی انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی نام نہاد این جی اوز بھی خاموش رہیں گی۔ آزاد عدلیہ کیلئے یہ سوال باقی رہے گا کہ ایان علی ریاست کی چور ہوتے ہوئے بھی رہائی پا سکتی ہے، لیکن بابرہ جو ایک شخص کی چوری کے الزام میں گرفتار تھی، اسے طبی بنیادوں پر بھی ضمانت پر رہائی نہ مل سکی۔ یہ دہرا معیار آخر کب تک۔؟ افسوس کہ بابرہ کی دردناک التجاؤں سے بے رحم، ظالم اور انسانیت سوز قانون کے بےحس کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ افسوس کہ بابرہ اپنے ساتھ اس ننھے پھول کو بھی نہ بچا سکی، جو بنا کھلے ہی مرجھا گیا۔