یہ اٹھارہ سالہ نوجوان آکاش ہے، جسکا تعلق کھیوڑا کی هندو کمیونٹی سے ہے، آکاش بارہویں جماعت کا طالب علم ہے اور کالج کے بعد سالٹ لیمپس کی ایک چھوٹی سی دوکان پر لیمپس بنانے اور ان میں بلب لگانے کا کام کرتا ہے ۔آکاش تعلیم اور محنت کے ذریعے اپنے خاندان اور کمیونٹی کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے تاہم معاشی ھالات ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے وہ پریشان ہے ۔
آکاش کا خاندان پانچ نسلوں سے کھیوڑہ میں مقیم ہے۔ کاش کے والد سورج پرکاش کا کہنا ہے کہ وہ دھوبی ہیں لیکن پانی کی قلت کی وجہ سے اس نے یہ کام چھوڑ کر مقامی منڈی میں دیہاڑی لگانی شروع کر دی ہے ۔
قیام پاکستان سے پہلے کھیوڑہ کی نصف سے زائد آبادی ہندو تھی لیکن تقسیم کے بعد اکثریت یہاں سے بھارت چلی گئی ۔ سامنے پہاڑی پر ہندو برادری کا مندر بھی تھا لیکن بھارت میں بابری مسجد کے سانحے کے بعد مشتعل مظاہرین اس مندر کو منہدم کردیا ، سورج پرکاش کا کہنا ہے کہ وہ مقامی آبادی سے خوش ہیں ، انہیں کوئی شکایت نہیں تاہم مندر کے انہدام اور شمشان گھاٹ نہ ہونے کی وجہ سے ان کا دل دکھی ہے ۔
کھیوڑہ کی اس چھوٹی سی ہندو برادری کے کئی مسائل ہیں تاہم حکومت اور معاشرہ مل کر ان کے چھوٹے چھوٹے مسائل مسائل حل کر سکتے ہیں ۔ ہماری زرا سی توجہ آکاش اور اس جیسے دیگر غیر مسلم پاکستانیوں کو معاشرے کا اہم اور باوقار شہری بنا سکتی ہے اور وہ پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔