آج کل اخبارات اور چینلز لا علمی کو فروغ دے رہے ہیں: سینئرصحافی حسین نقی کی لاہور پریس کلب میں گفتگو

”صحافت کی آزادی اور صحافیوں کے معاشی حقوق کی بازیابی کے لیے صحافیوں کی تاریخی جدوجہد کو عصر حاضر کی صحافت مسخرے پن میں ڈبو رہی ہے”

بیش تر چینلز چاہتے ہیں کہ چیف آف آرمی سٹاف اقتدار سنبھال لیں . اگرایسا ہوا تو بہت برا ہو گا. ان خیالات کا اظہار پاکستان کی صحافت کے ایک بڑے نام جناب حسین نقی نے لاہور پریس کلب کی طرف سے اپنے اعزاز میں ”میری باتیں، میری یادیں ” کے سلسلہ میں منعقدہ تقریب کے شرکاء سے کیا.

حسین نقی لکھنو میں پیدا ہوئے، ایوب خان کے دور آمریت میں کراچی میں طلباء تحریک کی قیادت سے عملی جدوجہد کا آغاز کیا. آپ لاہور پریس کلب کے تاحیات ممبر بھی ہیں .

حسین نقی کا صحافتی کرئیر دیانت داری اور اصول پسندی سے عبارت ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے صحافی کالونی میں ملنے والا پلاٹ شکریہ کے ساتھ یہ کہتے ہوئے واپس کر دیا تھا کہ میرے پاس ذاتی گھر ہے اس لیے یہ پلاٹ کسی بے گھر صحافی کو دے دیا جائے .

حسین نقی صاحب نے اپنی یادیں شیئر کرتے ہوئے کہا کہ صحافت کی آزادی، صحافتی اقدار کی سر بلندی اور کارکن صحافیوں کے معاشی حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے میں پانچ بار جیل جا چکا ہوں جس کے ثمرات سے آج کے صحافی مستفید ہو رہے ہیں .

انہوں نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مشرقی و مغربی پاکستان میں ورکنگ جرنلسٹس کے معاشی حقوق کو ٹریڈ یونین کی وساطت سے محفوظ بنانے کے لیے پی ایف یو جے کے پلیٹ فارم سے جس جدوجہد کا آغاز ہوا اس نے ویج بنوانے اور اس پر عمل درآمد کے لیے ویج ایوارڈ کی تشکیل کا تاریخی فریضہ ادا کیا.

انہوں‌نے بتایا کہ صحافیوں کی معاشی بد حالی کے دنوں میں بطور رپورٹر نوکری کی تو میری تنخواہ ایک سو پچاس روپے تھی. قلیل تنخواہ کی وجہ سے کام ختم کر کے گھر واپسی کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے میں اکثر دفتر میں سو جایا کرتا تھا. انہوں نے کہا ساٹھ کی دہائی میں آزادی صحافت اور کارکنوں کے معاشی حقوق کی جدوجہد میں صحافیوں کی یکجہتی نا قابل تسخیر تھی جس کی وجہ لیڈر شپ کی ایمان داری اور اپنے مشن کے ساتھ غیر متزلزل کمٹمنٹ تھی. قائدین سخت ترین گھریلو مسائل کے باوجود بھی جدوجہد جاری رکھتے تھے. انہوں نے منہاج برنا صاحب کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ ان کی بیگم ہڈیوں کی تکلیف دہ بیماری میں مبتلا تھیں. برنا صاحب اس ضمن میں کبھی اظہار نہیں کرتے تھے اور صحافیوں کے لیے شبانہ روز جدوجہد کی وجہ سے اہلیہ کو دیکھنے کے لیے ایک بار بھی نہیں جا سکے تھے. نثار عثمانی صاحب کو جب جیل بھیجا جا رہا تھا ان کی اہلیہ شوگر کی بیماری کی شدت کا سامنا کر رہی تھیں.

حسین نقی نے کہا صحافیوں کی اس طاقت و جذبے سے آمر ہی نہیں بلکہ جمہوری حکمران بھی خائف رہتے تھے. صحافت کی طاقت کو کمزور کرنے کے لیے پی ایف یو جے پر پہلا وار ذوالفقار علی بھٹو نے کوثر نیازی کی ایماء پر ضیاء السلام انصاری کے ذریعے صحافی برادری کو تقسیم کروا کر کیا تھا. انہوں نے کہا آج ذاتی مفادات صحافیوں کو متحد نہیں ہونے دیتے. صحافیوں کو متحد کرنے کی حالیہ کاوشیں بھی ذاتی مفادات کے غلبہ کی وجہ سے کامیاب نہیں ہو رہی ہیں. جب تک صحافی متحد نہیں ہوتےان کی ٹریڈ یونین تعمیر نہیں ہوتی کارکن صحافیوں کے معاشی حالات آسودہ نہیں ہو سکیں گے .

انہوں نے اپنی ادارت میں شائع ہونے والے پنجابی اخبار ” سجن ” کی اشاعت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا گوکہ میرا تعلق لکھنو اور اردوزبان سے ہے لیکن پنجابی زبان کی مزاحمتی شاعری ناصرف مجھے ذاتی طور پر بلکہ پاکستان کے عام لوگوں کو شعوری طور پر حکمران طبقات کے خلاف جدوجہد کے لیے ابھارتی ہے . اسی لیے پنجابی اشرافیہ وارث شاہ اور شاہ حسین سے ڈرتی ہے. انہوں نے کہا عام لوگوں کی صحافت کرنے کے لیے میں نے ”سجن ” کا آغاز کیا تھا جو صحافت کی اشرافیہ کو بھی اچھا نہ لگا اور اسے کیمونسٹوں کی سازش کے پراپیگنڈہ کی نظر کر دیاگیا.

حسین نقی نے اپنی نجی زندگی کے بارے میں بتایا کہ میری پیدائش لکھنو کی ہے، تعلق لوئر مڈل کلاس فیملی سے ہے. میری عمر اسی سال ہے. ابتدائی تعلیم علی گڑھ سے حاصل کی. لڑکپن میں تحریک پاکستان کے دوران نعرے لگاتا تھا. قائد اعظم کا پاکستان ایک ایسی فلاحی ریاست تھی جس میں تعلیم ، علاج اور زندگی

تقریب کے بعد حسین نقی کو اعزازی شیلڈ پیش کی جارہی ہے
تقریب کے بعد حسین نقی کو اعزازی شیلڈ پیش کی جارہی ہے

کی بنیادی ضروریات کی مفت فراہمی ریاست کی ذمہ داری تھی لیکن قیام پاکستان کے بعد سب کچھ بر عکس ہوا. میں نے عملی سیاست کا آغاز کراچی میں اسٹوڈنٹس یونین کی سرگرمیوں سے کیا.

انہوں‌ نے بتایا کہ انیس سو چونسٹھ میں جب ڈگری کورس کا دورانیہ دو سال سے تین سال کرنے کا فیصلہ ہوا تو اس کے خلاف مشرقی و مغربی پاکستان میں ملک گیر طلبہ تحریک منظم ہوئی. اسی دوران جب کراچی یونیورسٹی سے تحریک کے قائدین معراج محمّد خان ، طارق رضوی اور فتح یاب علی خان کو یونیورسٹی سے نکالا جانے لگا تو میں نے انتظامیہ سے میٹنگ کی جس میں متذکرہ ساتھیوں کی بجائے یونیورسٹی سے نکالے جانے کی سزا میں نے اپنے سر لے لی . بعد ازاں اسلامیہ کالج لاہور میں بھی طلبہ حقوق کے لیے جدوجہد کی پاداش میں نکالے جانے کی سزا کا سامنا کیا.

انھوں نے مزید کہا کہ میری سیاسی و صحافتی جدوجہد کی کامیابی میں سب سے اہم کردار میری اہلیہ کا ہے . ہم اکثر جیل چلے جاتے یا جدوجہد کے سلسلہ میں گھر سے باہر رہتے تو میری اہلیہ گھر کے معاشی و سماجی معاملات کو بھر پور انداز سے انجام دیتی تھیں. عصر حاضر میں صحافت کے معیار سے متعلق ایک سوال کے جواب میں جناب حسین نقی نے کہا کہ آج صحافت میں ماسٹر کرنے والے نئےصحافی کو یہ تک معلوم نہیں‌ کہ گلگت اور پشین پاکستان کے کس حصے میں واقع ہے ،جس سے ان کی علمی استعدادکی گرواٹ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے. انہوں نے لاہور پریس کلب کی انتظامیہ کو مشورہ دیا کہ صحافت کے معیار کو بہتر کرنے کے لیے کلب ممبرز کو مطالعہ کے لیے معیاری کتب فراہم کی جائیں اور سینئر صحافیوں جن میں آئی اے رحمان سرفہرست ہیں کے لیکچرز کا اہتمام کیا جائے.

انہوں نے کہا صحافی ذاتی طور پر مطالعہ لازمی کریں ، خاص طور پر ہر صحافی کو تاریخ اور جغرافیہ کی گہری اسٹڈی کرنا چاہیے. انہوں نے عائشہ جلال ، چوہدری محمّد علی اور خلیق الزمان کی کتابیں پڑھنے پر زور دیا.

انہوں نے کہا مشرف نے جب ستر اسی چینلز کی نشریات کی اجازت دی تھی تو بظاہر یہ صحافت کی آزادی تھی لیکن تب یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ چینلز صرف سیاست اور سیاست دانوں کو گالیاں دینے کے سوا کچھ اور نہیں کریں گے.

انھوں نے کہا میں نے آج کے مختلف اخبارات کے ساٹھ کالم پڑھے ہیں لیکن اس میں کوئی تحریر ایسی نہیں تھی جو عام آدمی کے علم میں اضافہ کرے. صحافت کا کام قاری کوحالات و واقعات سے آگاہ کرکے اس کی تربیت کرنا ہے لیکن اخبار میں بیس رپورٹر ہونے کے باوجود خبر ایک بھی نہیں ہوتی. انہوں‌ نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج خبر کا انحصار صرف پریس ریلیز پر ہے . صحافت کی اس زوال پذیری کی وجہ سے بالآخر اخبارات بند ہوتے جائیں گے اور صحافی بے روزگار. ہو جائیں گے . انہوں نے کہا صحافت کو زندہ رکھنے کے لیے صحافی عام لوگوں کے پاس جائے.

آخر میں‌لاہور پریس کلب کے صدر محمد شہباز میاں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا حسین نقی صحافت اور لاہور پریس کلب کا فخر ہیں. ان کی فکر ، گفتگو اور عملی زندگی کو ایک مثال بنا کر عام کرنا چاہیے. انہوں نے کہا حسین نقی صاحب کی گفتگو پر عمل پیرا ہو کر صحافت کے معیار کو بہتر کیا جا سکتا ہے.

تقریب کے آغاز میں سینئر صحافی علامہ صدیق اظہر ، خالد چوہدری ، سرفراز سید اور لطیف ڈوگر نے نقی صاحب سے وابستہ اپنی دلچسپ یادیں تازہ کیں.نقابت کے فرائض لاہور پریس کلب کے جنرل سیکریٹری عبدالمجید ساجد نے انجام دیے .

خیال رہے کہ لاہور پریس کلب نے اس سال ”میری باتیں، میری یادیں ” کے عنوان سے ایک سلسلہ شروع کیا ہے جس کے تحت ملک کے سینئر صحافیوں کو اپنی زندگی سے جڑی یادیں‌ سامعین سے شیئر کرنے کے لیے مدعو کا جاتا ہے . ان نشستوں میں حاضرین معزز مہمانوں سے سوالات بھی کرتے ہیں . اب تک ”میری باتیں، میری یادیں ” کے تحت معروف سینئر صحافی منو بھائی ، حسین نقی اور ڈاکٹر مہدی حسن سامعین سے مخاطب ہو چکے ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے