پڑھے لکھے لوگوں میں سے شائید بہت کم کے علم میں یہ بات آئی ہو کہ اس سال مئی کے مہینے میں پنجاب کے تمام اضلاع کی بلدیاتی حکومتوں کا تختہ الٹ دیا گیاہے۔پی ٹی آئی حکومت کے ایماء پرلوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 کے پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے کے نتیجے میں تقریباََ 58,000 منتخب عوامی نمائندوں کو قبل از وقت گھر بھیج دیا گیا ہے۔عوام کے ووٹ کی طاقت سے سامنے آنے والے ان بلدیاتی نمائندوں نے جنوری2017 میں اپنے اپنے عہدوں کا حلف اٹھایا تھا۔جس قانون کے تحت ان کا انتخاب منعقد ہوا تھا،اس کی شق نمبر 30 کے مطابق ان کی مدت منصبی پانچ (5) سال ہے۔یعنی جب انہیں منتخب کیا گیا تھا،اس وقت ووٹ دینے والوں اور ووٹ گننے والوں سبھی کو یہ توقع تھی کہ ان نو منتخب حکومتوں کو 2022 تک اپنے اپنے عہدوں پر خدمات سر انجام دینے کا موقع دیا جائے گا۔مگر مئی 2019 میں نافذ ہونے والے نئے ایکٹ کے نتیجے میں ان تمام منتخب نمائندگان کوقبل از وقت بر طرف کر دیا گیا ہے۔بر طرف ہونے والے متعدد سیاسی کارکن اس اقدام کے خلاف لاہورہائی کورٹ میں قانونی چارہ جوئی کر رہے ہیں۔ ان درخواست گذاروں میں سر فہرست احمد اقبال چوہدری ہیں جو نارووال ڈسٹرکٹ کونسل کے چیرمین تھے۔میں لاہور ہائی کورٹ میں ان کے مقدمہ کی پیروی کر رہا ہوں۔
مقامی حکومتوں کی برطرفی کے خلاف ہمارے مقدمے کی اساس آئینِ پاکستان ہے۔کسی بھی جمہوری ملک میں آئین محض قانونی دستاویز نہیں ہوتا،جس سے صرف وکلاء اور ججز کو سر و کار ہو۔ایک جمہوری ملک میں آئین کی مثال ایک عمرانی معاہدے کی سی ہوتی ہے جس میں عوام الناس ایک اہم شریک کی حیثیت رکھتے ہیں۔بلکہ یہ بات بھی غلط نہیں ہو گی کہ اصل میں آئین کی ہر ایک شق کے نگہبان پاکستان کے یہ اکیس کروڑ عوم ہیں۔اسی معروضی حقیقت کے پیش نظر ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مقامی حکومتوں کے مقدمے میں جو دلائل ہائی کورٹ کے حضور قانونی اسلوب میں پیش کیے گئے ہیں، وہی دلائل عوام الناس کے روبرو سادہ زبان میں پیش کریں۔تا کہ عوام الناس، جنہیں قرار دادِ مقاصد 1949 میں زمین پر خلیفۃاللہ قرار دیا گیا تھا،وہ بھی اس تاریخ ساز قانونی جنگ میں ہمارے ساتھ با الواسطہ شریک ہو سکیں۔
اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ لاہور ہائی کورٹ میں ہمارا زیر سماعت مقدمہ عمران خان کے مجوزہ بلدیاتی نظام کے فی نفسہ خلاف نہیں ہے۔مجوزہ نظام میں کٗئی خامیاں ہیں،مگر وہ ایک الگ بحث ہے۔ فی الحال ہمارا مقدمہ صرف اتنا ہے کہ عوام کے منتخب کردہ بلدیاتی نمائندوں کو قبل از وقت بر طرف نہیں کیا جا سکتا۔آئین اس کی اجازت نہیں دیتا۔ ویسے بھی اگر حکومت وقت کو بلدیاتی نظام کی مضبوطی اور اقتدار کی صحیح معنوں میں نچلی سطح پر منتقلی مطلوب تھی تو یہ کام موجودہ بلدیاتی حکومتوں کی تحلیل کے بغیر بھی ممکن تھا۔58,000 منتخب نمائندوں کی برطرفی کھلم کھلا سیاسی آمریت کا اظہار ہے۔ اس سے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ Devolution کی آڑ میں حکومت کا اصل ہدف سیاسی مخالفین کو چت کرنا ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فی الحال بلدیاتی حکومتوں کے تمام اختیارات غیر معینہ مدت تک کے لیے وزیر اعلی پنجاب کے چنیدہ 34 ایڈمنسٹریٹروں کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔یعنی مستقبل میں جب نیا نظام آئے گا سو دیکھا جائے گا،فی الحال معروضی حقیقت یہ ہے کہ پنجاب بھر میں افسر شاہی نے مارشل لاء لگا رکھاہے۔ خواہ ترقیاتی کام ہو یا شہروں کی صفائی، ایڈمنسٹرز کی مطلق العنان حکومت قائم ہے۔
مقامی حکومتوں کے مقدمے کا دارومدار بڑی حد تک آئینِ پاکستان کی دو شقوں پر ہے۔پہلی شق آرٹیکل 32 ہے جس کے ذریعہ 1973 میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ آئین کے نفاذ کے فوراََ بعد جلد از جلد مقامی حکومت کے ادارے "Local Government Institution” بنائے جائیں گے۔آرٹیکل 32 کا پس منظر دلچسپی سے خالی نہیں۔ بد قسمتی سے 1956 میں منظور ہونے والے پاکستان کے پہلے جمہوری آئین میں مقامی حکومتوں کے حوالے سے کوئی شق نہیں ڈالی گئی تھی۔1958 میں جب ایک فوجی افسر جرنل ایوب خان مرحوم نے اقتدار پر قبضہ کیا تو Devolution کے حوالے سے بہت چرچا کیا گیا۔اس لیے جب 1973 میں جمہوری قوتوں نے ایک بار پھر دستور تحریر کیا تو ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے مقامی حکومتوں کے بارے میں آرٹیکل 32 کا اضافہ کیا گیا۔یہ بھی قابل ذکر ہے آرٹیکل 32 میں پہلی بار ” بلدیاتی اداروں ” کی بجائے ” مقامی حکومتوں ” کی اصلاح استعمال کی گئی۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ 1973 سے لے کر 2001 تک آرٹیکل 32 میں دیے گئے اس خواب کو شرمندہِ تعبیر نہیں کیا جا سکا۔اس عرصے میں کئی بار مقامی حکومتوں کو جڑ سے اکھاڑ باہر پھینکا گیا اور نئے سے نئے ادارے تشکیل دیے جاتے رہے۔ٰ ہماری تحقیق کے مطابق1972 سے لے کر 2001تک پنجاب میں لوکل گورمنٹ کے حوالے سے 10 مختلف قوانین لاگو ہوئے۔ ظاہر ہے کہ عدم استحکام کی اس فضا میں مقامی حکومت کا پودا جڑ نہیں پکڑسکا۔
2001میں جب ایک بار پھر Devolution کا چرچہ ہوا تو آئین میں اس حوالے سے ایک نئی شق کا اضافہ کیا گیا۔یہ شق آرٹیکل 140-A کہلاتی ہے اِس کے الفاظ کچھ یوں ہیں:
Each Province shall, by law, establish a Local Government System and devolve Political, Administrative and Financial Responsibility and authority to the elected Representatives of the Local Government.
2010 میں جب ملک کی تمام پارلیمانی جماعتوں نے اتفاق رائے سے اٹھارویں ترمیم منظور کی تو آرٹیکل 140-A کو نہ صرف قائم رکھا گیا بلکہ اس میں ایک اضافی شق کے ذریعہ اسے اور تقویت دی گئی۔وہ اضافی شق یہ کہتی ہے کہ اب سے مقامی حکومتوں کے انتخابات کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی نہیں بلکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہو گی۔
سوال یہ اٹھتا کہ کیا آئین کے آرٹیکل 140A اور32 کی موجودگی میں صوبائی اسمبلیاں جب چاہیں اور جیسے چاہیں مقامی حکومتوں کو تحلیل کر سکتی ہیں؟
ہمارا موقف یہ ہے کہ ان صریح آئینی شقوں کی موجودگی میں صوبے ایسا نہیں کر سکتے۔ایسا کرنا آئین کی منشاء کے برخلاف ہے۔ اس سلسلے میں آرٹیکل 140 کے متن میں استعمال شدہ تین اصطلاحیں خاص طور پر قابل غور ہیں۔
پہلی اہم اصطلاح ” Devolve ” ہے۔آرٹیکل 140A کے مطابق صوبے مقامی حکومتوں کو اقتدار "Devolve” یعنی "منتقل” کرنے کے پابند ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ آئین سازوں نے یہاں "Delegate” یعنی ” تفویض اختیارات” کی بات نہیں کی۔اگر تو یہ لکھا ہوتا کہ صوبے کے اختیارات مقامی حکومتوں کو تفویض کر رہے ہیں تو ہم مان لیتے کہ صوبے جب چاہیں یہ اختیارات قانون سازی کے ذریعہ واپس بھی لے سکتے ہیں۔کیونکہ تفویض کردہ اختیارکسی بھی وقت واپس لیا جا سکتا ہے۔مگر جو اختیارات ایک آئینی تقاضے کے احترام میں ایک حکومت سے دوسری حکومت کو ” منتقل” ہو چکے ہیں ان کی واپسی اب ممکن نہیں ہے۔کم از کم آئینی ترمیم کے بغیر یہ نہیں کیا جا سکتا۔
"Devolotion” یعنی منتقلی کا لفظ آئین میں کئی جگہوں پر استعمال ہوا ہے۔اور ہر جگہ یہ لفظ ایک ایسے عمل کے لیے استعمال ہوا ہے جس کوواپس لوٹایا نہیں جا سکتا۔اقتدار کی منتقلی ایک ایسا عمل ہے جوایک دفعہ ہو گیا سو ہو گیا۔دوسری غور طلب اصطلاح "Establish” ہے۔آرٹیکل 140A میں جہاں صوبوں کو مقامی حکومتوں کی بابت قانون سازی کا اختیار دیا گیا ہے وہیں اس قانون سازی کے ہدف کا بھی واضح الفاظ میں تعین کیا گیا ہے۔قانون سازی کا ہدف مقامی حکومتوں کو "Establish” کرنا یعنی ” قائم کرنا” اور اقتدار انہیں منتقل کرنا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ قانون سازی کے اختیار کو بالکل الٹے مقصد یعنی مقامی حکومتوں کی تحلیل کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔یعنی قانون سازی کے ذریعہ مقامی حکومتوں کی تحلیل آرٹیکل 140A میں دیے گئے مینڈیٹ سے تجاوز کے مترادف ہے۔
تیسری غور طلب اصطلاح "Local Government” یعنی مقامی حکومت ہے۔آرٹیکل 140-A میں ” بلدیاتی اداروں ” کی بجائے "بلدیاتی حکومتوں ” کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ آرٹیکل 140-A سے پہلے آئین میں ” حکومت” کی اصطلاح صرف ” وفاقی حکومت” اور ” صوبائی حکومتوں ” کے لیے استعمال کی گئی تھی۔صوبائی حکومتوں کے تابع جو بھی ضلعی سطح کے انتظامی ادارے تھے انہیں ” بلدیاتی اداروں ” یا” اتھارٹی” کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ آرٹیکل 140-A کے متن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اب بلدیاتی اداروں کو فی نفسہ ” حکومت” تسلیم کر لیا گیا ہے۔اور اس لحاظ سے اب انہیں صوبوں کا ماتحت نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ان کی حیثیت وفاق کی ایک مستقل بالذات اکائی کی سی ہے۔اس بات کے قانونی نتائج دورس ہیں۔ مثلاََ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نارووال ڈسٹرکٹ کونسل کو آئینِ پاکستان اپنے علاقے کی خود مختار حکومت تسلیم کرتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لاہور میں بیٹھی ایک صوبائی اسمبلی نارووال کی حکومت کو بر طرف کرنے کی مجاز نہیں ہے اور نہ ہی وہ یہ اختیارات کسی ڈپٹی کمشنر کو سونپ سکتی ہے۔بالکل اسی طرح جیسے اسلام آباد میں بیٹھی وفاقی اسمبلی سندھ کی حکومت کو بر طرف کرنے کی مجاز نہیں۔
آرٹیکل 140-A کے یہ تینوں پہلو ہمارے اس موقف کی تائید کرتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی کا منظور کردہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ2019 غیر آئینی ہے۔منتخب مقامی حکومتوں کو بہ یک جنبش قلم تحلیل نہیں کیا جا سکتا۔پاکستان میں جمہوریت جس نازک موڑ سے گزر رہی ہے اس موقع پر مقامی حکومتوں کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے انہیں تسلسل کے ساتھ چلنے دینا چاہیے۔ آئے دن نیا نظام بنانا مقامی حکومتوں کو کھلونا بنانے کے مترادف ہے۔جمہوریت پسند قوتوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ منتخب مقامی حکومتوں کی حیثیت جمہوریت کے ہر اول دستے کی ہے۔ انہیں مضبوط کیے بغیر جمہوریت پر آئے دن ہونے والے حملوں کا مقابلہ نا ممکن ہے۔
ترکی میں جرنیلوں نے 2016 میں ایک بار پھر صدر اردگان کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تو استنبول کی مقامی حکومت جمہوریت کے دفاع میں سینہ سپر ہو گئی۔اسی لیے باغیوں کو شکست فاش ہوئی۔سیاسی جماعتوں میں قحط الرجال کا جو دیرینہ مسئلہ ہے اسکا علاج بھی مقامی حکومتوں کے نظام سے حل ہو سکتا ہے،بشرطیکہ انہیں چلنے دیا جائے۔جو شخص آج لاہور،کراچی،پشاور،کوئٹہ یا اسلام آباد کا مئیر ہے وہ کل،اپنی کارکردگی کی بدولت،صوبوں کا وزیر اعلیٰ یا ملک کا وزیر اعظم بھی بن سکتا ہے۔اگر مقامی حکومتوں کے طفیل ابھرنے والی فعال اور ہر دل عزیز قیادت کومیرٹ پر آگے آنے دیا جائے،تو جمہوریت سے موروثیت کا دھبہ دھویا جا سکتا ہے۔مگر اس سب کے لیے لازم ہے کہ پہلے مقامی حکومتوں کے جائز آئینی مقام کو تسلیم کیا جائے۔یہی وہ منزل مقصود ہے جس کی خاطر ہم نے ایک قانونی جنگ چھیڑی ہے۔انشاء اللہ العزیز ہم اس جنگ کو منطقی انجام تک پہچائیں گے،چاہے کتنے ہی ماہ و سال لگیں۔
عمر گیلانی اسلام آباد میں وکالت کرتے ہیں۔ پاکستان کے آئینی قانون میں مہارت رکھتے ہیں۔