راوی دریا کے ساتھ کئی کہانیاں تیرتی رہیں۔بچپن میں سنا کرتے کہ ہر جمعرات کو دریا سے ایک توپ کی نال نمودار ہوتی ہے۔راوی کا دوسرا کنارا کسی زمانے میں بیلا ہوا کرتا تھا۔سرکنڈے کے بلند گھاس میں پگڈنڈیاں بنی تھیں جو لاہور شہر سے آنے والے لوگوں کو شمالی کنارے سے نزدیک کے دیہات تک لے جاتیں۔درمیان میں کہیں پانی کے چھوٹے چھوٹے جوہڑ آ جاتے۔لاہور شہر گویا ایک کثیر النسلی تمدن کی صورت ہے۔یہاں دنیا کی ہر نسل کے وارث اب بھی مل جاتے ہیں۔کہہ سکتے ہیں کہ لاہور پنجاب کا ایک سفارتی اور تجارتی چہرہ تھا۔دریا کے پار جو پنجاب تھا وہ عام لوگوں کا تھا۔برچھیوں اور شام لگی ڈانگیں جن کا ہتھیار تھیں۔پورن بھگت اور رومانوی قصے جن کی تفریحی زندگی کا حصہ ،جو کسی مغنیہ کے پہلو کی گرمی میں بیٹھ کر غزل اور ٹھمری نہیں سن سکتے تھے۔
ان کے پاس سورج غروب ہوتے ہی ایک تاریکی آ جاتی، سرکنڈے کے خشک گھٹے جلا کر الائو کے گرد بیٹھ جانا ہی سماجی رونق ہوتی۔ بابر بادشاہ تزک میں لکھتا ہے کہ پشاور اور اس کے نواح میں موجود جنگلوں میں گینڈے وافر موجود ہیں۔آج پورے پاکستان میں کہیں گینڈا نہیں پایا جاتا۔انسان کی بینائی جا رہی ہے اور مخلوقات معدوم ہو رہی ہیں ۔کسی زمانے میں گائوں جاتے تو بڑے سے گھر میں وہ کونا اچھا لگتا جہاں خاموشی رہتی۔وہاں دیوار میں بنے ایک طاقچے میں مٹی کے چراغ روشن رہتے۔ ماڈل ٹائون موڑ سے گلاب دیوی ہسپتال کی طرف آئیں تو وہاں ایک گائوں ہوا کرتا تھا۔اس کا نام بھابڑہ ہے۔
اب یہ گلبرگ کا حصہ ہے۔بھابڑہ جین مذہب کے پیروکاروں میں تجارت پیشہ برادری کا نام ہے۔جین مت کے کلاکاچاریہ اسی برادری سے تعلق رکھتے تھے۔یاد رہے کہ پنجاب کے مقامی مذاہب میں جین مت سب سے قدیم سمجھا جاتا ہے۔لاہور اور اس کا نواح جین مت کا ثقافتی مرکز تصور کیا جاتا تھا۔سکندر اعظم اور جین مت کے ڈگامبرا فرقہ کے بزرگوں کے درمیان ایک مکالمہ بھی تاریخ کی کتابوں میں درج ہے۔کہا جاتا ہے کہ کلاکاچاریہ ہمارے لاہور کے اسی قصبے بھابڑہ سے تعلق رکھتے تھے۔ان کے تحریری ارشادات سترہویں صدی عیسوی تک موجود تھے۔بھابڑہ میں جین مت کے مندر گلی بھابڑیاں اور تھری بھابڑیاں میں موجود تھے۔بعض مؤرخین کا قیاس ہے کہ جس جگہ مشہور جین مندر ہے۔اس کے قریبی علاقے کو بھی بھابڑہ کہتے تھے۔ لاہور کا ایک اہم قدیم علاقہ اچھرہ ہے۔بارہ دروازوں والے لاہور سے باہر نکلنے والے کو مغل دور میں مزنگ کی بلوچ بستی،نیاز بیگ کی جاگیر اور اچھرہ کا قصبہ جنوب کی طرف ملتے۔ان میں سے اچھرہ قدیم ترین ہے۔
اچھرہ میں کئی کنال رقبے پر پھیلا ’’چاند رات مندر‘‘ ہوا کرتا تھا۔دوسرا مندر بھیرو کا استھان تھا۔لاہور کی تاریخ رقم کرنے والے بعض مورخین نے ان مندروں کا ذکر کیا ہے۔ہندو روایات کے مطابق بھیرو دیوتا اپنے غضب کی وجہ سے مشہور ہے۔بھیرو کے بھگت اپنے دشمن پر غلبہ پانے کے لئے اس کی پوجا کرتے ہیں۔یوگی اور تانترک ماورائی قوتیں حاصل کرنے کے لئے خاص منتروں کی پڑھائی اور جسمانی مشقت کرتے ہیں۔اچھرہ کے اس مندر کے ساتھ ایک داستان جڑی ہے۔جس کا تذکرہ مولوی نور احمد چشتی نے ’’تحقیقات چشتی ‘‘ میں کیا ہے۔رنجیت سنگھ کی محبوبہ موراں کی والدہ کو مرض ہوا۔لوگوں نے بتایا کہ کسی جن کا سایہ ہے۔اس وقت اس مندر کا نگران جوالا ناتھ تھا۔موراں کی والدہ ٹھیک ہوئی تو جوالا ناتھ نے ایک سو گاڑیاں اینٹوں کی وصول کیں۔ وہ علاقہ جہاں ماڈل ٹائون کے وسیع گھر اور کشادہ سڑکیں ہیں صرف ڈیڑھ سو سال پہلے گھنا جنگل تھا۔ایک بار کچھ معلومات کی خاطر آرکائیو ڈیپارٹمنٹ کی دستاویزات دیکھ رہا تھا۔
معلوم ہوا کہ ماڈل ٹائون والا علاقہ اس قدر جنگلی جانوروں سے بھرا تھا کہ شام کو لوگ اس کا رخ نہ کرتے۔یہاں ایک فارم ہائوس سوسائٹی بنانے کا فیصلہ ہوا تو جنگل کو صاف کیا گیا۔ماڈل ٹائون کی ابتدائی آبادی تاجر پیشہ ہندوئوں اور سکھوں پر مشتمل تھی۔یہی وجہ ہے ہر بلاک کے درمیان جو کمرشل ایریا اور عبادت گاہ کے لئے جگہ مختص کی گئی وہ وقف ہے۔پاکستان بننے کے بعد ہندوستان سے آنے والے مہاجرین نے ان گھروں پر قبضہ کر لیا۔کچھ کو کلیم میں یہاں رہائش گاہ مل گئی۔مکانات پر قبضے کے ساتھ ساتھ ماڈل ٹائون سوسائٹی کے انتظامی معاملات پر بھی قبضہ ہو گیا۔چند ہفتے قبل متروکہ وقف املاک ملیکت کا دعویٰ عدالت سے جیت چکا ہے۔اب یہ دکانیں ،متروکہ املاک پر بنے سکول اور دیگر ادارے بند پڑے ہیں۔ کئی سال پہلے سیدہ عابدہ حسین کا انٹرویو کیا۔گلبرگ میں ان کی رہائش گاہ کا گیٹ عبور کرتے ہی گھنے پیڑ استقبال کرتے ہیں۔تھوڑا پیدل جا کر گھر کے داخلی حصے تک پہنچتے ہیں۔عابدہ حسین کہنے لگیں کہ یہ گھر ان کے والد کرنل عابد حسین کی زمین پر بنا۔
ایک بار قائداعظم سے کرنل عابد کی ملاقات ہوئی تو قائد نے اس جگہ پلاٹ خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔کرنل عابد نے کہا کہ آپ نہر کے پار اچھرہ کے قریب پلاٹ لیں۔یہ جگہ تو کھیتی باڑی کے لئے استعمال ہو رہی ہے یہاں آبادی نہیں ۔قائد اعظم نے کہا کہ یاد رکھو!یہ علاقہ لاہور کا مرکز بنے گا۔آج یہ علاقہ گلبرگ کہلاتا ہے۔قائد کے پلاٹ پر لاہور کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے کچھ لوگ قبضہ کر کے ہڑپ کر گئے۔ راوی کے دوسرے کنارے‘سرکنڈوں اور تالابوں والی جگہ پر پہلے کچی سڑکیں بنیں‘زمینیں کھیتی باڑی کے لئے آباد ہونے لگیں‘کشتیوں کا پل بنا۔تانگے اور بیل گاڑیاں رواں دواں ہوئے۔ ان کھیتوں کی جگہ بنے گھروں میں سورج کی کرنیں نہیں آتی۔گاڑیوں کا دھواں آسمان کا رنگ بدل دیتا ہے۔خوبصورت پرندے ہجرت کر گئے۔ہر قدیم عمارت کو لاوارث سمجھ کر نقل مکانی کر کے آنے والوں نے اپنا ٹھکانہ بنا لیا۔لاہور کے آثار بہت سے مٹ گئے۔جو باقی ہیں ان کو بچانے کے لئے کسی کو فکر ہے نہ دلچسپی۔