سپرماڈل کی سرگزشت

تحریر : متین فکری

ayyan1

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کہتے ہیں کہ جنرل یحییٰ خان کے زمانے میں ترانہ نامی اداکارہ اُن سے ملنے کے لیے ایوانِ صدر پہنچی تو اسے استقبالیہ پر روک لیا گیا۔ پولیس افسر اس کے ساتھ انتہائی درشتی سے پیش آیا۔ اداکارہ اس سلوک سے گھبرا گئی، تاہم اس نے حواس بحال رکھتے ہوئے کہا کہ ”میں آئی نہیں بلائی گئی ہوں، میرے آنے کی اطلاع صدر کے اسٹاف کو کی جائے“۔

چنانچہ ایوانِ صدر میں صدارتی عملے کو ٹیلی فون پر مطلع کیا گیا تو اندر سے جواب آیا کہ میڈم کو پورے پروٹوکول کے ساتھ اندر بھیجا جائے۔ وہی پولیس افسر جو کچھ دیر پہلے اس پر آنکھیں نکال رہا تھا، انتہائی عزت واحترام کے ساتھ گاڑی میں بٹھا کر اندر لے گیا۔

جنرل یحییٰ خان کے ساتھ چند گھنٹے گزارنے کے بعد جب وہ ایوانِ صدر سے باہر آئی تو اُسی پولیس افسر نے کھڑے ہوکر اسے سلیوٹ کیا۔ وہ مسکرائی اور بولی: ”ابھی کچھ دیر پہلے تو تم مجھے کھانے کو دوڑ رہے تھے، اب کیا ہوا….!“ اس نے جوابی مسکراہٹ کے ساتھ کہا: ”میڈم پہلے آپ صرف ترانہ تھیں، اب قومی ترانہ بن گئی ہیں۔“

یہ واقعہ ہمیں اس لیے یاد آیا کہ اِن دنوں منی لانڈرنگ کیس میں ملوث ایک ماڈل گرل کا بہت چرچا ہے جو کئی ماہ سے اڈیالہ جیل میں محبوس ہے لیکن نجانے وہاں اس کی کس سے ملاقات ہوئی ہے کہ اخبارات اسے ماڈل کی بجائے ”سپر ماڈل“ لکھنے لگے ہیں۔

بظاہر اس کی جیل میں بی کلاس دینے کی درخواست ابھی عدالت میں زیر سماعت ہے، لیکن اُس کی جیل سے جو خبریں چھن چھن کر اخبارات میں شائع ہورہی ہیں اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی کلاس کیا چیز ہے اُس کے ساتھ تو جیل میں وی وی آئی پی سلوک ہورہا ہے۔ وہ اپنے ناشتے اور کھانے کا مینو خود طے کرتی ہے اور یہ کھانا اسے فائیو اسٹار ہوٹل سے فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کی خدمت کے لیے ایک نہیں چار چار خادمائیں موجود ہیں جن کا انتخاب جیل کی قیدی خواتین سے کیا گیا ہے، تاہم اس کا مطالبہ ہے کہ اسے خدمت کے لیے خواجہ سرا فراہم کیے جائیں، یہ عورتیں مساج کرنا نہیں جانتیں۔

سپر ماڈل کے پاس نئے نئے ڈیزائن کے لباس کی بھی وسیع رینج موجود ہے جن کا مظاہرہ وہ عدالت میں پیشی کے دوران کرتی رہتی ہے۔ ذوالفقار مرزا نے اس ماڈل کے ساتھ پیپلز پارٹی کی اہم ترین شخصیت کے تعلقات کا بھانڈا پھوڑا ہے اور یار لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ماڈل تو اسی وقت ”سپر ماڈل“ ہوگئی تھی جب سابق صدر کے دور میں ایوانِ صدر میں اس کا آنا جانا تھا، لیکن اخبارات کو اس کی سن گن نہ لگ سکی، اب لگی ہے تو وہ اسے سپر ماڈل لکھنے لگے ہیں۔ذوالفقار مزرا کا کہنا ہے کہ بس ایک آنچ کی کسر رہ گئی تھی ورنہ اسے ایوانِ صدر میں خاتونِ اول کا درجہ حاصل ہوجاتا۔

وہ نجانے کب سے ڈالروں سے بھرے بریف کیسوں کے ساتھ دبئی کے چکر لگا رہی تھی۔ اسلام آباد ائرپورٹ پر اس کی کلیئرنس کا خاص بندوبست ہوتا تھا اور کسی کی مجال نہ تھی کہ اس کے بریف کیس کو ہاتھ لگا سکتا، لیکن شاید کوئی تکنیکی غلطی ہوگئی اور پکڑی گئی۔ اب اسے پکڑنے والے اس کی ضمانت میں بھی مزاحم ہورہے ہیں اور کئی ماہ ہوگئے اس کی ضمانت ہی منظور نہیں ہو پارہی۔

ضمانت کے لیے اُس اہم ترین شخصیت کو اپنے آزمودہ اور نہایت قابل اعتماد وکیل لطیف کھوسہ کو میدان میں اتارنا پڑا ہے۔ یہ وہی وکیل ہیں جن کے بارے میں صولت مرزا نے یہ بیان دیا تھا کہ اسے قتل کیس سے بری کرانے کے لیے ایم کیو ایم نے انہیں بیس لاکھ روپے ادا کیے تھے اور انہوں نے یقین دلایا تھا کہ دیکھو وہ کس طرح چٹکی بجاتے اسے رہا کراتے ہیں۔ لیکن بیس لاکھ ڈکار لینے کے بعد انہوں نے ہری جھنڈی دکھا دی تھی۔ پندرہ سال پہلے وہ لاکھوں میں کھیلتے تھے، اب کروڑوں میں کھیلتے ہیں۔

اب ہمیں نہیں معلوم کہ سپر ماڈل کے ضمانت کیس میں ان کی کیا فیس طے پائی ہے۔ لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ وہ ہیں بہت پائے کے وکیل۔ انہوں نے ہائی کورٹ میں پیش ہوکر دلائل کا دھماکا کردیا ہے، انہوں نے فرمایا ہے کہ ان کی مو کلہ نہ تو ڈالروں سے بھرا بریف کیس لے کر بیرون ملک جارہی تھی نہ اس نے ائرپورٹ پر بورڈنگ کارڈ حاصل کیا تھا، نہ اس کے پاسپورٹ پر ایگزٹ کی مہر لگی تھی لیکن کسٹم حکام نے اس کے خلاف منی لانڈرنگ کا بے بنیاد کیس درج کرکے اسے گرفتار کرلیا ہے، اس لیے اسے ضمانت پر رہا کیا جائے۔

محترم لطیف کھوسہ اگر اپنے دلائل میں یہ بھی شامل کرلیتے کہ ان کی مو کلہ کو گھر میں سوتے ہوئے جگا کر پکڑا گیا ہے تو ان کا کیس زیادہ مضبوط ہوجاتا۔ بہرکیف اب دیکھیے عدالت ان کے دلائل سے مرعوب ہوکر سپر ماڈل کی رہائی کا پروانہ کب جاری کرتی ہے۔

لیکن صاحب، ہمیں سپر ماڈل کی رہائی سے زیادہ اس کی اسیری سے دلچسپی ہے، اس لیے کہ وہ اسیری کے دوران اپنی سرگزشت پر مبنی اعلیٰ ادب تخلیق کررہی ہے، اس نے جیل کے شب وروز کے بارے میں اب تک بہت سے صفحات تحریر بھی کرلیے ہیں۔ اخباری رپورٹ کے مطابق اس نے اپنی کتاب کا نام ”اسیرِ صیاد“ رکھا ہے۔

یوں تو کئی سیاست دانوں نے جیل میں اسیری کے دوران کتابیں تحریر کی ہیں۔ یوسف رضا گیلانی اور جاوید ہاشمی کی کتابیں اب بھی مارکیٹ میں موجود ہیں، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ایک سپر ماڈل کی جیل کی سرگزشت اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہوگی جو خودنوشت ادب میں گراں قدر اضافہ کرے گی۔

ہمیں امید ہے کہ عدالتِ عالیہ اپنی ادب نوازی کا ثبوت دیتے ہوئے سپر ماڈل کو یہ موقع ضرور فراہم کرے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے