وسیع تر تعلیمی اصلاحات کے بغیر معاشرے میں انتہا پسندی کے خاتمہ ممکن نہیں ،علم اور استدلال رکھنے والا معاشرہ ہی عسکری بیانئے کا توڑ ہو سکتا ہے ۔ان خیالات کا اظہار یہاں پر ایک ورکنگ گروپ میں سامنے آیا جس کا عنوان” رد ِانتہا پسندی کے لئے تعلیمی اصلاحات “تھاجس کا اہتمام پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز نے کیا تھا۔
مقررین میں پاکستان سٹدیز کراچی یونیورسٹی کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر سید جعفر احمد ، سابق سینیٹر افراسیاب خٹک ، اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر قبلہ ایاز ، ماہر تعلیم روبینہ سہگل،ڈاکٹر اے ایچ نیئر ،زہرا ارشد ،رومانہ بشیر ، عمر اورکزئی ،رشاد بخاری ، ڈاکٹر عمر عبداللہ ،ڈاکٹر حسن الامین ،ڈاکٹر خالد محمود ، اظہر حسین ،یعقوب بنگش اورپاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا شامل تھے ۔ ورکنگ گروپ نے تعلیمی اصلاحات کے لئے جو تجاویز دیں ان میں کہا گیا ہے کہ پہلے سے مروجہ نصاب کا از سر نو جائزہ لیا جائے اور اس میں ثقافت کو اہم عنصر کے طور پر شامل کیا جائے۔
یہ بات باعث ِ تشویش ہے کہ یونیورسٹیوں سے شدت پسند نکل رہے ہیں اس لئے یونیورسٹیوں میں تخلیق و اختراع کا ماحول پیدا کیا جائے ۔کئی ممبران نے تجویز کیا کہ تعلیمی شعبے کو خالصتاً مالی مفاد کے لئے استعمال کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے اور ایسے اداروں کی حاصلہ افزائی کی جائے جو تحقیق و تعلیم کو فروغ دے رہے ہیں ۔
گروپ نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 25کے تحت ہر شہری کو بنیادی تعلیم کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن ریاست یہ ذمہ داری ادا نہیں کر رہی ۔گروپ نے کہا کہ تعلیمی اصلاحات کے لئے صوبائی اسمبلیاں اپنی ذمہ داریاں پوری کریں ۔
گروپ نے تجویز دی کہ مساوی شہریت پر مبنی معاشرہ جو کہ تنوع کا حامل ہو اس کے قیام کے لئے تعلیم مو¿ثر ہتھیار ہو سکتی ہے گروپ نے تجویز دی کہ مساوی شہریت پر مبنی تعلیمی نظام کی رہنمائی آئین میں دیئے گئے بنیادی انسانی حقوق سے لی جاسکتی ہے ۔
گروپ نے کہا ریاست میں بیک وقت کئی طرح کے تعلیمی نظام اور نصاب رائج ہیں جن کے بارے میں ریگولیٹری داروں کو کوئی نظام وضع کرنا چاہئے ۔گروپ نے تجویز دی کہ مذہبی تعلیم ،مدارس اور ان کے نصاب کے لئے بھی باقاعدہ ظابطے وضع کئے جائیں۔