امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی

"مسلمان جس وقت اپنے اصلی نظام پر آئے گاوہ سرمایہ داری کا بت توڑنے والا ہو گااور آج دنیا میں سرمایہ داری کے سوا کون سا بڑا بت ہے جسے توڑنے کی ضرورت ہے”(مولانا عبید اللہ سندھی)۔ یکم مارچ 1872میں پیدا ہونیو الے حکیم الاسلام مولانا عبید اللہ سندھی برصغیر کی ایک ممتاز انقلابی شخصیت اورایک عظیم سیاسی راہنما ہونے کے ساتھ ساتھ مفسر قرآن،شارح امام شاہ ولی اللہ، سوشل ریفارمر اور نامور عالم دین تھے جنھوں نے ہندوستان کی آزادی اور احیائے اسلام کیلئے نمایاں کردار ادا کیا۔انکی ساری سیاسی جدو جہد انگریزوں کی غلامی سے نجات اور ہندوستان میں ایک ایسے معاشرے کے قیام کیلئے تھی جس میں پسے ہوئے طبقات کا استحصال نہ ہو اور جہاں زبان ، رنگ ، نسل اور کسی مذہبی امتیاز کے بغیر تمام طبقات کو یکساں سیاسی، سماجی اور اقتصادی مواقع اور مذہبی آزادیاں میسر ہوں ۔ وہ مذہبی رواداری اور انسانی حقوق کے سفیراور علمبردار تھے۔مسلمانوں کے زوال کے اسباب بیان کرتے ہوئے وہ ایک جگہ فرماتے ہیں”تقدس، تقدس ۔ یہ ایک عذاب بن گیا ہے۔فلاں لباس مقدس ہے، داڑھی مقدس ہے، اس طرح اٹھنا بیٹھنا مقدس ہے،فلاں زبان مقدس ہے، عربی مقدس ہے۔ اس میں دعا کرو تو اللہ جلد قبول کرتا ہے، غرض ملت کے دماغ کو اس تقدس نے عملا اپاہج کر کے رکھ دیا ہے اور اس نے سوچنے کی صلاحیت سلب کر لی ہے۔”۔ انھوں نے اپنی علمی تحقیقات اور مشاہدات کی بنیاد پراسلام کی روائیتی تعلیمات کو انقلابی سمت دی۔

لفظ”کافر”مسلمانوں اور غیر مسلموں میں حد فاصل سمجھا جاتا ہے جس کی تشریح میں مولانا عبید اللہ سندھی فرماتے ہیں کہ بائبل ، تورات اور گیتا کو ماننے والے بھی دنیا میں کثیر تعداد میں موجو د ہیں جبکہ کسی بھی مذہب کی پیروی نہ کرنے والے لوگ بھی دنیا میں موجودہیں۔ مولانا کے بقول بائبل ، تورات اور دیگر آسمانی کتابوں کی تعلیمات میں بگاڑپیدا کرنے والوں کیلئے قرآن میں کافر کا لفظ بطور اصطلاح استعمال ہوا ہے اور اسی تناظریا اصول کے تحت ذاتی یا گروہی مفادات کیلئے قرآن کی تعلیمات کی غلط تشریح کرنے والا بھی ملحدیا کافر قرار پانے کا حق دار ہے۔اسلام اور پیغمبر اسلام نے دوسرے مذاہب کی عزت کرنے اور انھیں برداشت کرنے کا درس دیا ہے۔پیغمبر اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اسلام عالمی امن کیلئے مسلمانوں کو دوسرے مذاہب کے ساتھ پر امن بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت ذندگی گزارنے پر زور دیتا ہے۔قرآن میں بار ہا اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ یہودی اور نصرانی اہل کتا ب ہیں اور ان قوموں میں بہت سے انبیاء بھی مبعوث ہوئے جو اسلام کی آمد سے پہلے خدا کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہے۔مولانا عبید اللہ سندھی نے دنیا کے بہت سے ممالک کاسفر کیا جس کے سبب انکی فکر اور فلسفے میں عالمگیریت کی جھلک نظر آتی ہے۔مولانا عبید اللہ سندھی عرصہ دراز تک نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ سے منسلک رہے۔

انھوں نے سیالکوٹ کے ایک ہندو گھرانے میں جنم لیاجبکہ پندرہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیااور دارلعلوم دیوبندسے مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا محمودالحسن کی معیت میں دینی تعلیمات حاصل کیں جبکہ مولانا نذیر حسین دہلوی سے دورہ حدیث جبکہ مولانا احمد حسن کانپوری سے منطق اور فلسفے کی تعلیمات حاصل کیں۔ 1909 میں دارلعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد انھوں نے پان اسلامک موومنٹ اور تحریک ریشمی رومال میں بھرپور حصہ لیا اور بعد ازاں سندھ کے شہر سکھر کے ایک مدرسے میں استاد مقرر ہو گئے۔سندھ کے ایک گاؤں گوٹھ پیر جھنڈا میں انھوں نے دارلارشاد کے نام سے ایک علمی ادارہ قائم کیا۔مولانا عبید اللہ نسلی اعتبار سے سندھی نہیں تھے بلکہ سندھ میں کافی عرصہ تک علمی خدمات کے سبب سندھی انکا لقب بن گیا تھا۔ دہلی کے حکیم اجمل خان اور ڈاکٹر انصاری بھی ان کے مصاحبین میں سے تھے ۔

1912میں انھوں نے دہلی میں ایک مدرسہ قائم کیا جس نے اسلامی تعلیمات اور فکر کی اشاعت کیلئے زبردست کام کیا۔ ہندوستان کی انگریزوں سے آزادی کیلئے انھوں نے افغانستان، جرمنی، روس، ترکی اور سعودی عرب سمیت بہت سے ممالک کا سفارتی دورہ کیاجبکہ روس، چین، جاپان، جرمنی اور ترکی سے عسکری تعاون کیلئے بھی اپیل کی۔وہ راجہ مہندرا پرتاب کی زیر سرپرستی 1915میں افغانستان کے دارلحکومت کابل میں بننے والی آزادہندوستان کی عارضی انقلابی حکومت کے وزیر بھی رہے ۔ مولانا سندھی شاہ ولی اللہ دہلوی سے بہت متاثر تھے اور انکی فکر کی روشنی میں اسلامی فلسفے کو سمجھنے اور اس کے مطالعہ کیلئے حجازمیں چودہ سال تک قیام پزیر رہے۔ مولانا عبید اللہ سندھی نے کافی وقت روس میں بھی گزارا جہاں انھوں نے سوشلزم کا بغور مطالعہ کیا۔ روسی راہنماؤں کے ساتھ اسلام کے فلسفہ معیشت اور روس کے سوشلسٹ نظام میں مشترک اقدار پر بہت سی علمی نشستیں کیں جس میں انھوں نے دلائل و براہین سے اس بات پر زور دیا کہ کمیونزم کا فلسفہ فطرت کے قوانین سے متصادم ہے اور یہ محض استحصال اور ظلم کے خلاف ایک ری ایکشن ہے جبکہ اسلامی فلسفہ اقتصادیات جامع اور قوانین فطرت کے عین مطابق ہے۔ اسلام غریب اور پسے ہوئے طبقات کے ساتھ گہری ہمدردی رکھتا ہے اور ارتکاز دولت کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔لینن ان دنوں شدید بیمار تھا جس کے سبب اس سے مولانا کی ملاقات ممکن نہ ہو سکی۔

بہر حال روس میں سات ماہ قیام کے دوران روسی حکومت نے انھیں گیسٹ آف سٹیٹ کا درجہ اور پروٹوکول دیا ۔1936میں انڈین نیشنل کانگریس کی درخواست اور انگریز راج کی طرف سے اس درخواست کی منطوری پر انھوں نے ہندوستان واپسی کا سفر اختیار کیااور مختلف ممالک کادورہ کرتے ہوئے بالآخر بحری سفر کے ذریعے کراچی کی بندرگاہ پر پہنچے۔مولانا کتنے دور اندیش اور سیاسی بصیرت کے حامل تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب وہ 25سال کی طویل جلا وطنی کے بعد 1939میں واپس آئے توآخری دنوں میں بہت پریشان تھے۔ایک دن ان کی بیٹی نے کہا کہ اب آپ اتنے پریشان کیوں ہیں ، انگریز جانے والا ہے اور ہندوستان کی آزادی قریب ہے آپ کو خوش ہونا چاہئے۔تو اس پر مولانا نے فرمایا کہ جن کے حوالے کر کے جارہا ہے جب لوگ ان کے کارناموں کو دیکھیں گے تو وہ یہ کہیں گے کہ انگریز اچھا تھا۔

ان کی مشہور کتابوں میں سفر نامہ کابل، شاہ ولی اللہ اور ان کا فلسفہ،شعور و آگاہی، قرآنی شعور انقلاب،خطبات و مقالات اور انکی سوانح حیات پر مشتمل ذاتی ڈائری نمایاں ہیں۔پاکستان پوسٹل سروس نے تحریک آزادی میں انکی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے انکی یاد میں 1990 میں اعزازی ٹکٹ جاری کیا۔1944میں رحیم یار خان کی تحصیل خان پور کے ایک گاؤں دین پور میں مولانا اپنی بیٹی کے گھر تھے کہ جہاں انھیں علالت نے گھیر لیا اور یوں برصغیر کایہ عظیم مدبراور امام انقلاب اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔

سوچتا ہوں کہ ڈھلیں گے یہ اندھیرے کیسے لوگ رخصت ہوئے اور لوگ بھی کیسے کیسے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے