ہم اپنا مستقبل اپنے ہاتھوں سے ختم کر رہے ہیں ۔

اسلام آباد کے ایک نجی ہوٹل میں پناہ ہارٹ انٹر نیشنل ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ایک سیمینار ہوا۔جس میں اس بات کی آگاہی دی گئی کہ ہم کتنے بے خبر ہیں،اس بات سے کے ہمارے بچے کس طرف جارہے ہیں،جس کا ہمیں علم ہی نہیں،جی ہاں قارئین ہم بات کر رہےہیں آ ج تمباکو نوشی کی اور بہت افسوس کے ساتھ یہ بات آ پ سب کے علم میں لا رہی ہوں کہ پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر 200 لوگ نشے کے عادی ہو رہے ہیں جو کہ بڑی تشویشناک بات ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ ان کو یہ منشیات کالج اور یونیورسٹی میں مہیا کیں جاتیں ہیں ۔طالبعلم بجائے تعلیم حاصل کرنے کے اس لعنت کا شکار ہو رہے ہیں۔جس کو روکنے کی بھی کوشش ناکام نظر آتی ہے جو انتہائی افسوناک ہے ۔ اگر اب بھی اس بات پر کوئی قانون نہ بنایا گیا تو ہمیں بہت نقصان کا سامنا کرنا ہو گا،پناہ کے جرنل سیکریٹری ثنااللہ گھمن نے کہا کہ اول تو قوانین یہ ہونے چاہئیں کہ اسکول،کالج اور یونیورسٹیوں کے پاس اس قسم کی دکانیں ہونی ہی نہیں چاہیں جن میں سگریٹ نوشی کا سامان بکتا ہو ۔

یہ زہر قاتل جہاں بھی ہوگا وہاں یہ انسانی آبادیوں اور تعلیمی اداروں میں پہنچتا رہے گا اور نوجوان نسل کو نقصان پہنچتا رہے گا کیونکہ یہ نشہ ایسا ہے کہ یہ انسان کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر دیتا ہے کہ انسان جوانی میں مریض بن جاتا ہے انسان کے پھیپھڑے ختم ہو جاتے ہیں جو کہ بہت بڑا نقصان ہے ۔

ہمیں سنجیدگی سے اس بارے میں حکومت سے مطالبہ کرنا ہوگا کہ وہ اس لعنت کا ملک سے خاتمہ کرنے کے لیے فوری طور پر کوئی سخت قدم اٹھائیں تاکہ مزید لوگوں کو اس کا شکار ہونے سے بچایا جاسکے ۔

اکثر گھروں میں گھر کے مرد سموکنگ کرتے ہیں اور سیگرٹ ختم ہونےکےبعد بچوں کو مزید سیگریٹ خریدنے کے لیے بھیج دیتے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے،اس کی روک تھام کے لیئے ایک یہ قانون بھی بنوایا جائے کہ 20 سال سے کم عمر بچوں کو سیگریٹ نہیں دیا جائے ۔

دوسرے سیگریٹ اور نسوار حقہ یا شیشہ کہہ لیجئے اور اول تو ان پر مکمل پابندی لگائی جائے اور ساتھ یہ اصول بھی بنایا جائے کہ پبلک پلیسس پر سگریٹ نوشی کی اجازت نہ ہو۔ کالج یونیورسٹی میں سیگریٹ نوشی کو ممنوع قرار دیا جائے ۔شادی ہالز میں ان پر پابندی ہونی چاہیئے اسکے علاوہ پبلک ٹرانسپورٹ اور پکنک پوائنٹس پر سیگریٹ نوشی پر پابندی ہونی چاہیئے ۔

اسکول کالجز میں سختی سے پابندی ہونی چاہیئے اور والدین کی یہ زمداری ہے کہ وہ بچوں کہ بیگز کو بھی چیک کرتے رہیں کہ کہیں وہ اس کا شکار تو نہیں ہو رہے جسکی وجہ سے انکی صحت متاثر ہو رہی ہو کیونکہ یہ ایک نہ قابل تلافی نقصان کی وجہ بنتی ہے ۔

حکومت کو چاہیئے کہ تمام نشہ آور چیزوں پر ٹیکس بڑھا دے تاکہ وہ لوگوں کی پہنچ سے دور ہوں ۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ اشیاء لوگوں کی پہنچ سے باہر ہو جائیں تو وہ اسکا استعمال بھی کم کردیں گےجس سے ان کی صحت پر نقصان بھی کم ہوتا ہے۔۔خود حساب لگائیے کہ جب 200 لوگ اس کا روز شکار ہو رہے ہیں تو سالانہ کتنی تعداد میں ہوں گےجو کہ ایک تشویش ناک بات ہے ۔ہمیں اس بیماری سے چھٹکارا حاصل کرنے کے ان تمام چیزوں سے بچنا ہوگا بلکہ اپنے ساتھ اس مہم میں اپنے ارد گرد والوں کو ساتھ لیکر چلنا ہو گا تاکہ ہم آنے والے وقت میں نشے سے پاک پاکستان بنانے میں کامیاب ہو سکیں ۔بس یہ مقصد جسے ہم سب نے ملکر اور لوگوں تک پہنچانا ہوگا تاکہ ہم ہے مقصد میں کامیاب ہو سکیں۔اور اپنی آنے والی نسل کو محفوظ بنا سکیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے