1
کیچ سے ایک افسانوی داستان
آج میں جو کہانی لکھنے کی جسارت کر رہی ہوں وہ کیچ سے تعلق رکھنے والی سمعیہ (فرضی نام) کی سچی کہانی ہے، سمیعہ پر کیا گزری اور اب وہ زندگی کے شب و روز کیسے گزار رہی ہیں، سمعیہ کی کہانی اسکی زبانی سن لیتے ہیں۔
بھائی کے شادی کے دن قریب تھے ہم سب گھر والے بہت خوش تھے اور تیاریوں میں مگن تھے ، گھر میں خوشیوں کا سماں تھا اور گھر کا ہر فرد بھائی کے شادی میں ہاتھ بٹا رہا تھا ۔ میرے بھائی کا ایک قریبی دوست بھی ہے جو ہروقت ہمارے گھر آتا جاتا ہے۔ میں اکثر ان کے لئے چائے بناکر ان کو پیش کرتا تھا۔
وقت اور سمَنْدر کی لہریں کسی کا انتظار نہیں کرتے ہیں ،سو وقت گزرتا گیا اور ان دنوں جب بھائی کی شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں تو بھائی کے دوست بھی ہر گھڑی ان کے ساتھ تھے لیکن میں یا میری کوئی بہن ان کے سامنے نہیں جاتی تھی کہ یہ ہمارے رواج کے خلاف تھالیکن ہم بھائی اور ان کے دوست کی خاطر مدارت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے ۔
خیر انہیں دنوں بھائی کی شادی کی تیاریاں شروع ہوگئیں تو وہ دوست بھی آتا رہا اور گھر والوں کی طرح کام کرتا رہا۔ بھائی کی شادی ختم ہوئی لیکن دلہن کسی دوسرے شہر کی رہنے والی تھیں۔
جب ہم نکاح کرنے دوسرے شہر جانے کی تیاریاں کررہے تھے تو بھائی نے بولا کہ میرا دوست بہن سمیت اسی شہر میں جارہا ہے تو گھر والوں کی مرضی سے بھائی کے دوست اور اسکی بہن کو ساتھ ملا لیا۔
سفر لمبا تھا اور ہم سب شادی کی تقریبات ختم کرکے واپس گاؤں آگئیں۔
کچھ دنوں کے بعد بھائی کے دوست کا رشتہ میرے لئے آیا، کیونکہ بس میں ہم ایک ساتھ تھے اور وہاں میں نے پردہ نہیں کیا تھا۔
ماں کے انتقال کے بعد ہماری دیکھ بھال خالہ کرتی تھیں، جب اس رشتے کے بارے میں خالہ نے مجھ سے پوچھا تو میں نے بس اتنا کہا کہ جو آپ لوگ بہتر سمجھتے ہیں ویسا کریں۔ خالہ نے اس رشتے کو ہاں کیا اور پھر میری شادی ہوگئی۔
شادی کی پہلی رات میرے شوہر نے مجھے اپنی زندگی کے بارے میں سب کچھ بتادیا اور یہ بھی کہا وہ بچپن سے اپنے ایک ہمسائی کے ساتھ رشتہ رکھے ہوئے ہیں۔تو میں نے ان سے کہا آپ نے پھر اس عورت سے شادی کیوں نہیں کی ؟ تو ان کا جواب یہ تھا کہ وہ عورت صرف وقت گزاری کے لئے تھی باقی شادی کی بات الگ ہے اور آج سے تم میری زندگی ہو اور ہمسفر ہو ،اس طرح میں نے بھی ان کو کچھ نہیں کہا کیونکہ انہوں نے سچ خود بتایا تھا سو اس طرح زندگی کی گاڈی چلتی رہی اور ہماری شادی کو ایک سال پورا ہوا۔
لیکن وہ عورت روز ہمارے گھر آتی اور وہاں ہمارے ساتھ بیٹھ کر کڑھائی کرتی تھی اور میں نے کبھی بھی اس عورت کو محسوس نہیں ہونے دیا کہ میں اس کے بارے میں سب سچ جانتی ہوں ۔۔
وقت کے ساتھ ساتھ مجھے محسوس ہوتا رہا کہ وہ عورت اب بھی میرے شوہر کے ساتھ جڑی ہوئی ہے لیکن میں پھر بھی خاموش تھی کیونکہ مجھے یقین تھا اپنے شوہر پر ۔
پھر ایک دن میرے شوہر نے خود ہی مجھے رات کو سوتے وقت بتایا کہ میں آج پھر اس عورت کے پاس گیا تھا ۔ یہ سن کر جیسے میرا دل سینے سے نکل گیا اور میں نے غصے میں شوہر سے کہا کہ کیوں ایسا کیا آپ نے تو اس نے بات کو ہلکا لیا اور کہا کہ کیا ہو گیا اگر میں اس کے پاس گیا ہوں،مجھ میں کوئی کمی تو نہیں ہوئی ہے ناں تو بات اس رات لڑائی جھگڑے کے ساتھ بات ختم ہوگئی۔
کچھ دن بعد پھر یہی ہوا اور اب روز روز ایسا ہونے لگا وہ عورت میری موجودگی میں بھی آ کر میرے شوہر کے قریب بیٹھ جاتی تھی جیسے اس میں شرم نام کی کوئی چیز بھی نہیں تھی لیکن میں پھر بھی خاموش تھی اور شوہر کو بار بار کہتی کہ مت کرو ایسا اگر کرنا ہے تو مجھے طلاق دو اور شوہر اس بات کو ہنسی مذاق میں اڑا دیتا تھا ۔اور میرا غصہ زیادہ ہوتا گیا لیکن میں مجبور تھی کہ کیا کروں۔
میرے شوہر سگریٹ تک نہیں پیتے تھے بس یہ عورت کا چکر اس کا پتہ نہیں کیوں وہ ایسا کر رہا تھا۔۔ اسی دوران میں حمل سے ہوئی اور شوہر اس وقت اپنی ہی روش پر چلتے رہے اور ایک دن بات اتنی بڑھ گئی کہ میں ناراض ہو کر والد کے گھر چلی گئی اور تین مہینے اسی طرح گزر گئے پھر ایک دن مجھے سب نے سمجھایا اور میں اپنے گھر واپس آ گئی،شوہر نے ایک بار پھر وعدہ کیا کہ اب ایسا کچھ نہیں ہوگا تو میں نے کہا اگر ایسا ہوا تو مجھے طلاق دینا تو وہ ہنسنے لگے کہ تم طلاق لو گی پاگل ہو تم اتنی سی بات پر طلاق کا نام لیتی ہو ، کیا لے سکتی ہو بس ایسے ہی کہتی ہو ہر وقت، پاگل ہو گی ہو کیا اور اس طرح وقت گزرتا گیا،میں اپنی نوکری کے سلسلے میں سکول بھی جاتی تھی ۔ وقت گزرتا رہا اور میں حمل کے سفر سے گزر کر اب اپنے بچے کے ساتھ خوش تھی ۔۔۔
ایک دن میں اپنے سکول سے گھر آئی تو دیکھا کہ میرے کمرے میں چوڑیوں کے ٹکڑے پڑے ہوئے ہیں اور یہ چوڑیاں میں نے اسی عورت کے ہاتھوں میں دیکھی تھیں ، تو میں نے اپنے شوہر کو ایک میسج کیا کہ آج گھر کون آیا تھا تو اس نے کہا کوئی نہیں اور میں نے پھر دوبارہ پوچھا تب بھی اس نے انکار کیا،شام ڈھلتے ہی آخری بار پوچھا کہ مجھے سچ سچ بتاؤ اگر سچ کہو گے تو میں اس بات کو ختم کر دوں گی۔
میرے شوہر نے مجھ سے تب بھی جھوٹ بولا اور اس کی اس بات سے جیسے مجھے نفرت سی ہونے لگی اور میں شور کرنے لگی سارا گھر سر پر اٹھا لیا ۔ رات کا آخری پہر تھا شوہر اٹھ کر اپنی ماں کے پاس گیا کہ آ کر اسے سمجھا دیں یہ بار بار طلاق مانگ رہی ہے اور میں اس کو طلاق نہیں دینا چاہتا کیونکہ میں اپنے بیوی بچوں سے بہت محبت کرتا ہوں ۔
تو اس کی والدہ نے مجھے سمجھایا کہ بس کرو خدا کے لئے رات کو آواز دور تک جاتی ہے لیکن میں کہاں ہوش میں تھی بس شور کر رہی تھی کیونکر شوہر نے جھوٹ بولا اور کیوں اس عورت کو وہ چھوڑ نہیں سکتا آخر وجہ کیا ہے ۔۔۔رات اس حال میں گزر گئی اور صبح میں نے اپنی خالہ کو کال کی کہ آ کر مجھے لے جاؤ اب بس ہو گی ہے میری برداشت کی۔۔۔خالہ نے میرے بھائی اور کچھ اور بڑے لوگوں کو ساتھ لیا اور آ گئی ۔
شوہر بازار گیا آنے میں دیر کی کہ شاید یہ لوگ چلے جائیں لیکن وہ بیٹھے رہے اور میری خالہ نے کال کر کے اس سے کہا کہ گھر آ جاؤ کیونکہ تم اگر رات تک نہیں آؤ گے ہم انتظار کریں گے لیکن آج تمھاری بیوی کی ضد ہے کہ فیصلہ ہو جائے تو خالہ کی بات سن کر وہ آ گیا تو اس دیوان میں جہاں میرے لوگ اور اس کے سب شامل تھے بیٹھے تھے اور اس سے کہہ رہے تھے کہ اب کیا کہتے ہو تو وہ بس خاموشی سے سن رہا تھا کوئی جواب نہیں دے رہا تھا تب مجھے بہت غصہ آیا اور میں نے چیخ کر کہا کہ قسم کھاؤ کہ آئندہ تم اس عورت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھوگے لیکن اس نے قسم نہیں کھائی تب جو مولوی وہاں موجود تھے اس نے میرے شوہر سے پوچھا آخر کس بات پر آپ کی لڑائی ہے۔ تو بھی شوہر خاموش تھا تو میں نے چیخ کر اس عورت کی نام لیا ،کہ اس عورت کو چھوڑنے کی قسم کھاؤ لیکن مجال ہے جو وہ قسم کھاتا بس سر نیچے کئے بیٹھا رہا اور تب میں بے ہوش ہو گئی ۔۔۔مجھے بھائی اپنے گھر لے گیا اور جب مجھے ہوش آیا میں پھر بنا دوپٹے کے بھاگ کر باہر نکل گئی کہ مجھے میرے گھر جانا ہے لیکن وہاں میری ضد نے اپنا اثر کر دیا تھا اور میری طلاق ہو چکی تھی ۔
اب میں اکیلے اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ الگ ایک کرایہ کے مکان میں رہتی ہوں اور میرے بیٹے کا باپ اس سے ہر دو دن بعد ملنے آتا ہے ۔
اور اب وہ کہتا ہے کہ حلالہ کرو پھر میں دوبارہ تم سے نکاح کرنا چاہتا ہوں آج ہمارے طلاق کو تین سال پورے ہو رہے ہیں اور اب وہ پشیمان ہیں اور میں بھی کہ میں نے کیوں اتنی جلدی بازی میں فیصلہ کیا اور زندگی برباد کر دی۔
میری کہانی پڑھ کر آپ سوچیں کہ کیا واقعی ایک شوہر اپنی بیوی کے ساتھ ایسا کرنے کا حقدار ہے اور کیا ایک اچھی بیوی کو اس قدر غصہ کرنا اور ایسے فیصلے کرنے چاہئیے؟ اتنی جلد بازی کرنی چاہیئے ؟؟؟؟؟