ملکی تاریخ گواہ ہے کہ ہرآنے والی نسل کے کانوں میں ایک ہی آواز پھونکی جارہی ہے۔پاکستان بحران کی لپیٹ میں ہے نازک صورتحال سے دوچار ہے۔ ذخیرہ اندوزوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا پر زندگی کی 37 سے زائد بہاریں دیکھنے کے باوجود کم از کم میں اس بات کی گواہ ضرور ہوں کہ بحرانوں کے سدباب کیلئے اور نازک صورتحال سے نمٹنے کیلئے نظام کو صرف مذاق بنایا گیا اور کچھ نہیں۔
ان آنکھوں نے جابجا دیکھاکہ بارشوں اور سیلابی پانی سے 4 ماہ پہلے ملک کے طول و عرض کوہ سلیمان سے لے کر بلوچستان و سندھ تک انسانوں،حیوانات و زراعت کی تباہی۔قدم قدم پر انسانی ومویشیوں کی جانوں سمیت پاکستان کی بمپر کراپ گندم جو ہر فرد کا پیٹ بھرنے کئے لازمی جزو تصور ہوتی ہے ۔وہ گندم کیسے خراب ہو کر گلی سڑی پڑی ہے۔
بہت سوں نے ان علاقوں میں جاکر نہیں دیکھا مگر تصاویر اور ویڈیو تو دیکھی ہیں۔پھر بھی لوگوں کو بھوکا مارنے کیلئے بچی کچی گندم ذخیرہ کرلی گئی تو سستے آٹے کے نام پر مہنگا کیا گیا آٹا لمبی لائنوں میں لگے غریبوں کی موت کا سبب بنایا گیا ۔جنوبی پنجاب تا کشمور حکومتی احکامات پر آٹے کی ملوں سے مختلف مقامات پر قائم آٹے کی پوائنٹس سے لائن میں لگنے والوں کی بجائے مافیا اور دکانداروں کو سر عام آٹا فراہم کیا جارہا ہے۔بات یہاں ختم نہیں ہوتی ہے۔
زیر نظر تصویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آٹے کے حصول کیلئے تونسہ شریف کی باپردہ خواتین آٹے کے ٹرک کے پیچھے بھاگ رہی ہیں۔واضح رہے یہ خواتین اس قبائلی یا پسماندہ علاقہ تونسہ شریف سے تعلق رکھتی ہیں جنہیں 4 ماہ قبل سیلاب میں ڈوبنے کے باوجود زمین بوس گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی اور آٹے کے حصول کیلئے برقہ میں بھاگ رہی تھیں تو دوسری طرف میرپور خاص میں باپ آٹا نہ ملنے اور بچوں کی بھوک و افلاس سے اٹھی سوالیہ نظروں کا سامنا کرنے کی سکت نہ رکھنے پر زندگی و غربت سے ہار گیا اورآٹے کے تھیلے کیلئے بھگڈر میں موت کو گلے لگا گیا۔
جس سے آٹا بحران خون آلود ہو چکا ہے۔ اگر میں بھول نہیں رہی توہم ہمیشہ سے یہی سنتے آرہے ہیں کہ وسائل سے مالامال پاکستان کے دیگر وسیع ذخائر کے ساتھ ملکی معیشت کا 68فیصد زرعی پیداوارپر منحصر ہے جسمیں گندم بمپرکراپ ہوتی ہے۔ مگر اسی وطن عزیز میں آج سستا آٹا خریدنےکی کوشش میں 6 بچوں کا باپ جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے تو سینکڑوں مزدور و سفید پوش ایک آٹے کے تھیلے کیلئے گتھا ہیں توآٹے کے عارضی اسٹال پر 2 روز میں دوسری ڈکیتی ہوئی، ایک واردات میں 3 ڈاکو آٹے کے اسٹال سے 45 ہزار لوٹ کر فرار ہوئے اور دوسری واردات میں 8 ملزمان آٹے کے 20 تھیلے چھین کر لے گئے، 8 ملزمان 4 موٹر سائیکلوں پر آٹے کے تھیلے لے کر فرار ہوئے۔
جبکہ محکمہ زراعت نے 2022.23 ربیع سیزن کے لیے 93 لاکھ ایکٹر رقبے سے 2 کروڑ 84 لاکھ ٹن گندم کی پیداوار کا ہدف مقرر کیا ہے جس خواب کا شرمندہ تعبیر ہونا ممکن نظر نہیں آتا ہے کیونکہ سندھ اور پنجاب کے کچھ اضلاع میں زرعی اراضی کا بڑا حصہ تاحال زیر آب ہے تو متعدد گندم کی پیداوار کے متاثرہ سیلابی علاقوں میں کاشتکاروں کو متاثرہ زمینوں کی آباد کاری کیلئے ایک بوری گندم اور ایک بوری یوریا کھاد کی فراہمی کا احسان لگایا گیا ہے مگر ان زمینوں سے سیلابی پانی نکالنے،جمی ہوئی مٹی میں ہل چلانے سمیت تیل اور زمینوں کا لیول کرنے کیلئے کوئی سہولت فراہم نہیں کی گئی۔
دوسری طرف سرکاری اعداد وشمار کے مطابق رواں سال گندم کی مجموعی پیداوار کا ہدف دو کروڑ 29 لاکھ میٹرک ٹن لگایا گیا تھا جبکہ متوقع پیدوار دو کروڑ 26 لاکھ میٹرک ٹن تک ہو گی۔ گندم کی ملکی سطح پر مجموعی کھپت کا تخمینہ تین کروڑ میٹرک ٹن لگایا گیا ہے۔ گندم کی حکومتی سطح پر خریداری کے حوالے سے پنجاب نے 91.66 فیصد، سندھ نے 49.68 فیصد، بلوچستان نے 15.29 فیصد جبکہ پاسکو نے 100 فیصد ہدف حاصل کر لیا گیا ہے۔
مقامی ضروریات کے مقابلے میں گندم کی کم پیداوار کے سبب وفاقی کابینہ نے ملک میں 30 لاکھ ٹن گندم کی درآمد کی منظوری دی ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ برس بھی ملک میں دو کروڑ 28 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی پیداوار ہوئی تھی جو ملکی ضرورت سے کم ہونے کے باعث پاکستان کو 20 لاکھ ٹن گندم بیرون ملک سے منگوانی پڑی تھی۔
گندم کی پیداوار کےا ہداف اور پیداوار میں واضح فرق کی وجوہات گندم کی کاشت میں کمی، پانی کی قلت اور گذشتہ حکومت کی کھاد کی فراہمی میں بد انتظامی شامل رہی تو جبکہ مارچ میں گندم کی امدادی قیمت کا تاخیری اعلان کسانوں کی گندم کی کاشت میں 2 فیصد کمی کا رجحان بھی دیکھنے میں آیا۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلی بھی گندم کے طے شدہ اہداف کے حصول میں بڑی رکاوٹ رہے۔2021-22 میں گندم کا زیر کاشت رقبہ 2.1 فیصد کم ہو کر ہیکٹر89 لاکھ 76 ہزار ایکڑ رہ گیا جو 2020-21 میں91 لاکھ 68 ہزار ایکٹر تھا۔
ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ آٹے کی قیمت 150 روپے سے اوپر چلی گئی ہے، کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں میں سب سے مہنگا آٹا فروخت ہو رہا ہے، جہاں فی کلو آٹے کی قیمت 160 روپے ہو گئی۔جبکہ مارکیٹ میں گندم کی قیمت 5100روپے فی چالیس کلو گرام تک پہنچ چکی ہے۔
سوال یہ ہے اس سب کا ذمہ دار کون ہے اور عوام کا کیا قصور ہے؟پس ثابت ہوا حکمران ہوں،سیاست دان یا ذخیرہ اندوز انہیں طوفانوں،سیلابوں یا بھوک و افلاس میں گھری قوم سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ انہوں نے کب 10 کلو آٹے کا تھیلا خریدنے کیلئے لائن میں لگنا ہے؟یا انہیں محسوس ہو سکے کہ دن بھر آٹے کی لائن میں لگنے کے بعد خالی ہاتھ لوٹنے کی ناامیدی اور مزدوری سے بھی ہاتھ دھونا کیا ہوتا ہے۔بچوں کو بھوک سے بلکتے دیکھتے ہوئے مرنا کیا ہے؟ اور نہ ہی کسی آفت پہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔احساس تو بیماری کا نام ہے جس سے دور تلک ان کاکوئی واسطہ نہیں ہے۔
سستا آٹا معیاری آٹا ضروری آٹا جیسی بیماری عوام کو لگتی ہے اور بھوک،موت بے بسی عوام کا ہی مقدر ٹھہرتی ہے۔سیلاب کے بعد جس غذائی بحران و بھوک وافلاس کے قحط کا سامنا ہونا ہے ۔نایاب آٹا ابھی اس کی ایک جھلک ہے۔آنے والا وقت اپنے ساتھ اس سے بھی بڑی سنگینی لانے والا ہے ۔جس کے عملی سدباب کی بجائے پاکستان میں صرف اجلاس پہ اجلاس ہوں اور نتیجہ ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل نہ کرنے والا ہی نکلے گا اورسابقہ تجربات ومشاہدات کےمطابق مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھ سکتے ہیں۔