سوشل میڈیا پر ایک عرصے سے جعلی فتوؤں کی بھر مار ہے ۔ ان فتوؤں میں کہیں شراب کو حلال قرار دیا گیا ہے تو کہیں ہم جنس پرستی کو جائز قرار دینے کی سند جاری کی گئی ہے ۔
ابھی ایک تازہ فتویٰ سوشل میڈیا پر شئیر کیا جارہا ہے جس میں کہا گیا ہے گرمی زیادہ ہے ۔اس وجہ سے روزہ نہ رکھا جائے ۔
آئی بی سی اردو نے اس حوالے سے جب جامعہ بنوریہ عالمیہ سائیٹ کراچی کے مہتمم مفتی محمد نعیم سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ایک عرصے سے جعلی فتوے سوشل میڈیا میں شئیر کئے جا رہے ہیں ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس جعلی کام میں ان کے مدرسے کا لیٹر ہیڈ استعمال کیا جارہا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ان فتوؤں کے پیچھے وہ عناصر ہیں جو معاشرے میں خدا بیزاری اور دین بیزاری پھیلانا چاہتے ہیں ۔
گذشتہ برس جامعہ کراچی کے استاد ڈاکٹر شکیل اوج کے قتل کے بعد بھی پاکستان میں دیوبندی مکتب فکر کی سب سے نمایاں درسگاہ دارلعلوم کراچی کے مفتی رفیع عثمانی سے منسوب ایک فتویٰ سوشل میڈیا پر پھیلایا گیا جس میں ڈاکٹر شکیل اوج کو مرتد قرار دیا گیا تھا۔
اس فتوے کی مفتی رفیع عثمانی نے تردید کی تھی ۔ان کا کہنا تھا کہ وہ ڈاکٹر شکیل اوج کا جانتے ہیں اور نہ ہی کسی نے ان سے ان کے بارے میں فتویٰ مانگا ہے ۔
سوشل میڈیا پر مخالف مسلک کے افراد اور عقائد کے بارے میں ایسے بیان شئیر کر ہے ہیں جو ان کی کتابوں یا شخصیات نے نہیں کہے ہوتے ۔ من گھڑت بیانات کی بنیاد پر معاشرے میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
سوشل میڈیا پر کئی ایسے صفحات بھی موجود ہیں جن میں مختلف مذاہب کی مقدس شخصیات کا مذاق اڑایا گیا ہے اور ان کی توہین کی گئی ہے ۔
سوشل میڈیا پر کئی شخصیات کے جعلی اکاؤنٹس بنائے گئے ہیں اور ان اکاؤنٹس سے جھوٹی اور من گھڑت خبریں پھیلانے کا سلسلہ جاری ہے ۔ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے نام سے پیج بنا کر ان سے فرقہ واریت پھیلائی جا رہی ہے ۔
حکومت کی جانب سے سائبر کرائم بل پاس ہونے کے باوجود بھی یہ سلسلہ رک نہیں رہا۔